وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
اور اگر تم پر (اے مسلمانو)! اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو ایسا معاملہ تم پر سخت پیچیدہ بن جاتا) اور اللہ تعالیٰ بڑا التفات فرمانے والا [١١] اور حکیم ہے (جس نے معافی کا یہ قاعدہ مقرر کردیا۔
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ....: ’’اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی…‘‘ اس ’’اگر‘‘ کا جواب محذوف ہے، یعنی ’’تو پھر تمھارا وہ حال ہوتا جو بیان میں آنا مشکل ہے‘‘ اس لیے یہ جواب محذوف کر دیا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لعان کا حکم نازل نہ کرتا تو خاوند اگر بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھتا تو اس کا معاملہ دوسرے لوگوں کی طرح نہیں تھا، جن کے متعلق حکم ہے کہ اگر وہ کسی کو زنا کرتے ہوئے دیکھیں اور وہ چار گواہ نہ لا سکتے ہوں تو خاموش رہیں، کیونکہ اس میں ان کا ذاتی دخل نہیں اور وہ اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں، بخلاف خاوند کے کہ وہ اگر خاموش رہے تو ساری عمر دل کی جلن کے ساتھ خاموش رہے اور دوسروں کی اولاد کو اپنی اولاد تسلیم کرے، طلاق دے تو اس کا نقصان ہے اور اگر الزام لگائے تو چار گواہ لائے، اگر نہ لا سکے، جو بظاہر لانے ممکن نہیں تو بہتان کی حد جھیلے۔ دوسری طرف اگر محض خاوند کے الزام یا قسمیں کھانے سے بیوی کے زنا کا ثبوت ہو جاتا تو عورت کے لیے سخت مصیبت تھی، کیونکہ ممکن ہے وہ سچی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو قسمیں کھانے کی وجہ سے بری سمجھ لیا جاتا تو مرد پر حد قذف واجب ہو جاتی، حالانکہ ممکن ہے وہی سچا ہو۔ اس لیے لعان کا حکم اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس نے یہ حکم اپنے ’’ تَوَّابٌ ‘‘ اور ’’ حَكِيْمٌ ‘‘ ہونے کی وجہ سے دیا ہے، تاکہ میاں بیوی میں سے جو فریق سچا ہو بلاسبب سزا سے بچ جائے اور جو جھوٹا ہو دنیا میں اس پر پردہ رہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی توّابیت کی صفت کی بدولت توبہ کر لے اور اسے توبہ قبول ہونے کی سعادت حاصل ہو جائے۔