الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ وہی نکاح کرے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ اور اہل ایمان پر یہ کام [٦] حرام کردیا گیا ہے۔
1۔ اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً : یہاں ایک سوال ہے کہ کئی زانی مرد عفیف اور پاک دامن عورتوں سے نکاح کرتے ہیں اور کئی زانیہ عورتوں سے عفیف اور پاک دامن مرد نکاح کر لیتے ہیں، تو اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہاں نکاح سے مراد معروف نکاح نہیں ہے، بلکہ یہ جماع کے معنی میں ہے اور مقصد زنا کی قباحت اور شناعت بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زانی مرد اپنی ناجائز ہوس کسی زانیہ ہی سے پوری کرے گا جو اس جیسی بدکار ہے، یا کسی مشرکہ سے جو زنا کو حرام نہیں سمجھتی، اسی طرح زانیہ عورت کی ناجائز ہوس وہی مرد پوری کرے گا جو اس جیسا بدکار ہے، یا کوئی مشرک جو زنا کو حرام نہیں سمجھتا اور ایسا کرنا یعنی زنا کرنا مومنوں پر حرام کر دیا گیا ہے۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے۔ اس تفسیر کے مطابق آیت سے مراد زنا کی حرمت ہے، نکاح کی حرمت نہیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ فاسق و فاجر آدمی، جس کی عادت زنا اور فسق ہے، اسے صالح عورتوں سے نکاح کی رغبت نہیں ہوتی، اسے اپنے جیسی کسی خبیث، فاسق اور بدکار عورت یا اس جیسی مشرکہ عورت ہی سے نکاح کی رغبت ہوتی ہے، اسی طرح علانیہ بدکار اور فاسق عورت سے نکاح کی رغبت صالح مردوں کو نہیں ہوتی بلکہ اس جیسے بدکار مردوں ہی کو ہوتی ہے۔ ان مفسرین کے مطابق یہ حکم اکثر لوگوں کا بیان ہوا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے نیکی کوئی پرہیز گار آدمی ہی کرتا ہے، حالانکہ بعض اوقات وہ آدمی بھی نیکی کر لیتا ہے جو پرہیز گار نہیں ہوتا۔ اسی طرح زانی بعض اوقات عفیفہ و مومنہ عورت سے نکاح کر لیتا ہے اور زانیہ عورت سے بعض اوقات عفیف و مومن مرد نکاح کر لیتا ہے۔ مشرک مرد اور مشرکہ عورت کی زانی مرد اور زانیہ عورت کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ جس طرح مشرک مرد اور مشرکہ عورت اپنے مالک کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتے ہیں اسی طرح زانی مرد اپنی بیوی کو چھوڑ کر اور زانیہ عورت اپنے شوہر کو چھوڑ کر غیروں سے منہ کالا کرتے ہیں۔ 2۔ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ:’’ ذٰلِكَ ‘‘ کا اشارہ بعض نے زنا کی طرف قرار دیا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، مگر زیادہ درست یہی ہے کہ یہ اشارہ عقد نکاح کی طرف ہے۔ یعنی یہ جانتے ہوئے کہ فلاں عورت بدکار اور غیر تائب ہے، اس سے نکاح کرنا مومن مردوں کے لیے حرام ہے، اسی طرح اپنی پاک دامن بیٹی کو کسی بدکار شخص کے نکاح میں دینا جو تائب نہ ہو، مومنوں کے لیے حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۠ وَ الْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ وَ الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ﴾ [النور : ۲۶ ] ’’گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر بھی مردوں اور عورتوں کے نکاح کے لیے دونوں کے پاک دامن ہونے کی اور بدکار نہ ہونے کی شرط لگائی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ وَ طَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَا اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَ لَا مُتَّخِذِيْ اَخْدَانٍ﴾ [ المائدۃ : ۵ ] ’’آج تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے۔‘‘ ’’ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ ‘‘ کی شان نزول میں مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بدکار عورتوں یا بدکار مردوں سے، جو تائب نہ ہوں، نکاح حرام ہے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جسے مرثد بن ابی مرثد ( رضی اللہ عنھما ) کہا جاتا تھا، وہ مکہ سے قیدی اٹھا کر مدینہ لایا کرتا تھا اور مکہ میں ایک بدکار عورت تھی، جسے عناق کہا جاتا تھا، وہ اس کی دوست تھی۔ مرثد بن ابی مرثد نے مکہ میں قید ایک آدمی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ اس کا بیان ہے کہ میں مکہ میں آیا اور میں چاندنی رات میں مکہ کی ایک دیوار کے سائے میں تھا کہ عناق آئی، اس نے دیوار کے ساتھ میرے سائے کا ہیولا دیکھا۔ جب وہ میرے پاس پہنچی تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ کہنے لگی : ’’مرثد ہو؟‘‘ میں نے کہا : ’’مرثد ہوں۔‘‘ کہنے لگی : ’’مرحباً و اھلاً، آؤ ہمارے پاس رات گزارو۔‘‘ میں نے کہا : ’’عناق! اللہ نے زنا حرام کر دیا ہے۔‘‘ اس نے آواز دی، خیموں والو! یہ وہ آدمی ہے جو تمھارے آدمی اٹھا لے جاتا ہے۔ چنانچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے اور میں (مکہ کے ایک پہاڑ) خندمہ پر چلنے لگا، حتیٰ کہ اس کی ایک غار تک پہنچ کر اس میں داخل ہو گیا۔ وہ لوگ آئے، حتیٰ کہ میرے سر پر آ کھڑے ہوئے اور انھوں نے پیشاب کیا، تو ان کا پیشاب میرے سر پر گرا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مجھ سے اندھا کر دیا۔ پھر وہ واپس چلے گئے، میں بھی دوبارہ اپنے ساتھی کے پاس آیا اور اسے اٹھایا، وہ آدمی بھاری تھا، یہاں تک کہ میں اسے ’’اذخر‘‘ تک لے آیا (یعنی مکہ سے باہر جہاں اذخر گھاس تھی)، اس کی بھاری بیڑی کھولی اور اسے اس طرح لے کر چلا کہ میں اسے اٹھاتا تھا اور وہ مجھے تھکا دیتا تھا، حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : ’’یا رسول اللہ! میں عناق سے نکاح کر لوں؟‘‘ میں نے دو مرتبہ یہ بات کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ [النور : ۳ ] تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مرثد! زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور جو زانیہ یا مشرکہ ہے اس سے نکاح نہیں کرتا مگر جو زانی ہے یا مشرک ہے، اس لیے تو اس (عناق) سے نکاح مت کر۔‘‘ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ النور : ۳۱۷۷۔ نسائي : ۳۲۳۰۔ أبوداؤد : ۲۰۵۱۔ مستدرک حاکم :2؍166، ح : ۲۷۰۱، و قال الألباني حسن الأسناد ] ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’زانیہ عورت سے نکاح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں تصریح فرمائی ہے کہ وہ حرام ہے اور فرمایا کہ جو اس سے نکاح کرے وہ زانی ہے یا مشرک، کیونکہ یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی قبول کرے گا اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھے گا یا نہیں۔ اگر وہ اس کے وجوب کا عقیدہ ہی نہ رکھتا ہو تو وہ مشرک ہے اور اگر اس کی پابندی قبول کرتا ہو اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھتا ہو، پھر اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ زانی ہے۔ پھر اس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی کہ زانی یا مشرک سے نکاح مومنوں پر حرام کر دیا گیا ہے۔‘‘ اس آیت کے مطابق امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ پاک دامن مرد کا نکاح زانی غیر تائب عورت سے اور پاک دامن عورت کا نکاح زانی غیر تائب مرد سے حرام قرار دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تفسیر سورۂ نور میں اس مسلک کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کی پُر زور تردید کی جو اس نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں۔ 3۔ اگر کسی مرد سے زنا سرزد ہو جائے، پھر وہ توبہ کر لے تو اس کا نکاح پاک دامن عورت سے جائز ہے، اسی طرح زانیہ عورت توبہ کر لے تو اس سے عفیف مومن کا نکاح جائز ہے، جیسا کہ کوئی مشرک مرد یا عورت شرک سے توبہ کرکے مسلمان ہو جائیں تو ان کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ اس کی دلیل سورۂ فرقان کی آیت (۷۰) اور دوسری بہت سی آیات ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ میں ایک عورت کے پاس جاتا تھا اور اس کے ساتھ اس کام کا ارتکاب کرتا تھا جو اللہ نے مجھ پر حرام کیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اس سے نکاح کروں تو کچھ لوگوں نے کہا ہے : ’’ إِنَّ الزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً ‘‘ ’’زانی نہیں نکاح کرے گا مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے۔‘‘ توابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’یہ آیت اس کے متعلق نہیں، تم اس سے نکاح کر لو، جو گناہ ہو گا وہ میرے ذمے رہنے دو۔‘‘ (ابن کثیر، دکتور حکمت بن بشیر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)