سورة المؤمنون - آیت 70

أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یا وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اسے جنون ہے [٧٠]۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کے اس سچی بات لایا ہے لیکن ان میں [٧١] سے اکثر لوگ حق کو پسند ہی نہیں کرتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ ....:’’ جِنَّةٌ ‘‘ پر تنوین تنکیر کی ہے، یعنی یہ کہتے ہیں کہ اس کو کسی قسم کا جنون ہے۔ چوتھی وجہ ان کے انکار کی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ کہتے ہوں کہ اسے کسی قسم کا جنون ہے اور واقعی وہ آپ کو کسی قسم کا دیوانہ یا پاگل سمجھتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی اصل وجہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ہٹ دھرمی سے اپنی زبان سے جو چاہیں کہتے رہیں، مگر دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال دانائی کے قائل ہیں، کیونکہ خود انھوں نے صادق اور امین کا لقب دیا ہے۔ بھلا پاگلوں کو یہ لقب دیا جاتا ہے، پھر وہ کیسا دیوانہ ہے (یا مستشرقین کی ہرزہ سرائی کے مطابق مرگی کے دورے کا مریض ہے) کہ دیوانگی یا مرگی کے دورے کے وقت اس کی زبان سے قرآن جیسا کلام نکلتا ہے، جس کی سب سے چھوٹی سورت کا جواب پیش کرنے سے پوری کائنات قاصر ہے اور جس نے تیئیس (۲۳) برس کے مختصر عرصے میں ساری دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ : جب یہ بات بھی نہیں تو نتیجہ یہی ہے کہ جو دعوت اس رسول نے پیش کی ہے وہ حق ہے، جب کہ ان کے اکثر حق بات کو ناپسند کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان کی شتر بے مہار خواہشات اور حیوانی خصلتوں کے خلاف ہے۔ چنانچہ وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ سچی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ فرمایا : ’’ان میں سے اکثر حق کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ کیونکہ جو حق پسند تھے وہ ایمان لے آئے۔