سورة الحج - آیت 67

لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک [٩٦] طریقہ مقرر کیا جس پر وہ چلتے ہیں۔ لہٰذا انھیں اس معاملہ میں آپ سے جھگڑنا نہیں چاہئے [٩٧]۔ آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں۔ بلاشبہ آپ راہ راست پر ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ: ’’ مَنْسَكًا ‘‘’’ نَسَكَ يَنْسُكُ‘‘(ن، ک)سے مصدر میمی ہے، عبادت، قربانی، عبادت کا طریقہ یا قربانی کا طریقہ، یا یہ ظرف ہے، یعنی عبادت یا قربانی کی جگہ۔ ’’نَسْكٌ‘‘ اور ’’نُسُكٌ‘‘ عبادت، ذبیحہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا : (( إِنَّ أَوَّلَ نُسُكِنَا فِيْ يَوْمِنَا هٰذَا أَنْ نَّبْدَأَ بِالصَّلَاةِ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ )) [ بخاري، العیدین، باب استقبال الإمام الناس في خطبۃ العید : ۹۷۶، عن البراء رضی اللّٰہ عنہ ] ’’ہمارے آج کے دن میں ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس جائیں اور قربانی کریں۔‘‘ یہاں نماز کو ’’ نُسُكٌ ‘‘ کہا گیا ہے۔ ’’ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ‘‘ کا جملہ اس سے پہلے آیت (۳۴) میں بھی گزرا ہے، وہاں اس کا معنی قربانی کا طریقہ کیا گیا ہے، کیونکہ وہاں آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پالتو مویشیوں پر اللہ کا نام لینے یعنی ذبح کرنے کا ذکر ہے۔ 2۔ آیات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب حج کے بعض مناسک میں تبدیلی کی، اسی طرح جیسے پہلی امتوں کے لیے مقرر کر دہ بعض احکام منسوخ بھی کیے اور بعض میں تبدیلی فرمائی تو کفار مکہ نے، جو دین ابراہیم کے پیروکار ہونے کے دعوے دار تھے اور یہود و نصاریٰ سب نے جھگڑنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اصل دین ایک ہے جو توحید ہے، مگر ہم نے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے اس زمانے کے احوال و ضروریات کے مطابق عبادت کا ایک طریقہ مقرر فرمایا، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے تھے۔ جس میں بعض چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی تھیں، جس طرح موسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے تورات اور عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے تورات کے ساتھ انجیل تھی۔ اب قیامت تک دنیا کے تمام لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور ان کا ضابطۂ حیات قرآن مجید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : ﴿ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا ﴾ [ المائدۃ : ۴۸ ] ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔‘‘ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ ....: یعنی اللہ تعالیٰ اگر بعد میں آنے والے نبی کے زمانے میں کسی عبادت کے طریقے میں کوئی تبدیلی کر دے تو بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ دل و جان سے اسے قبول کریں نہ کہ اس معاملے میں پیغمبر سے جھگڑا شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ یہ لوگ ہر گز آپ سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کریں، یعنی آپ بھی ان سے جھگڑا نہ کریں اور نہ انھیں جھگڑے کا موقع دیں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے چلے جائیں اور یقین رکھیں کہ آپ بالکل سیدھے راستہ پر ہیں۔ سورۂ جاثیہ میں فرمایا : ﴿ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰى شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ الجاثیۃ : ۱۸ ] ’’پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔‘‘