أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یا (اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب [٣٧١] سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا : ''اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (آباد کرے گا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا : ''بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟'' وہ بولا کہ ''یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا۔[٣٧٢] اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ''بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو، یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہوچکا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دیں [٣٧٣] (کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے، اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔'' جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا : اب مجھے خوب معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
1۔ اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ:اس ’’اَوْ ‘‘ کا عطف اس سے پہلی آیت ”اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ“ میں مذکور ”الَّذِيْ“ پر ہے، یعنی کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے.... یا کیا تو نے اس جیسے شخص کو نہیں دیکھا......۔ ”اَلَمْ تَرَ“ کا معنی ”اَلَمْ تَعْلَمْ“ ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۂ فیل کے حواشی) اور ”اَلَمْ تَرَ“ سے مقصود کوئی عجیب واقعہ بیان کرنے سے پہلے اس کے سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے۔ 2۔ خَاوِيَةٌ:یہ باب ”ضَرَبَ“ سے اسم فاعل ہے، مادہ ’’خ و ی‘‘ ہے، جس کا معنی کھوکھلا ہونا ہے۔ چونکہ کھوکھلا ہونے کا نتیجہ گر پڑنا ہے، اس لیے اس کا معنی گر پڑنا بھی آتا ہے، عموماً پہلے چھت گرتی ہے پھر دیواریں اس پر گر پڑتی ہیں، اس لیے فرمایا:’’چھتوں پر گری ہوئی تھی۔‘‘ 3۔ لَمْ يَتَسَنَّهْ:اس لفظ کا مادہ یا تو ’’ س ن ن ‘‘ ہے، جس کا معنی بدبو دار ہونا ہے، جیسے فرمایا:﴿مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ [الحجر:۲۶ ] ’’جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔‘‘باب تفعل میں’’ لَمْ يَتَسَنَّنْ ‘‘ہو گیا، پھر آخری نون کو ’’ہاء ‘‘سے بدل دیا، جیسے:”لَمْ يَتَقَضَّضِ الْبَازِيْ“ (باز تیزی سے نہیں جھپٹا) کو ”لَمْ يَتَقَضَّهْ“ کر دیتے ہیں، یا پھر اس کا مادہ ’’سن ن ہ ‘‘ ہے، اس سے باب تفعل ”تَسَنَّهَ“ کا معنی روٹی کا بدبودار ہونا ہے، اس صورت میں ’’ہاء ‘‘ اصل ہے، تو ”لَمْ يَتَسَنَّهْ“ کا معنی ہے، بدبودار نہیں ہوا۔ 4۔ پہلے قصے سے کائنات کو بنانے والے کا ایک ہونا (یعنی توحید) بیان کرنا مقصود تھا، جبکہ اس قصے اور اس کے بعد والے قصے سے حشر و نشر ثابت کرنا مقصود ہے۔ اس آیت میں مذکور شخص سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ کون تھا۔ بعض تابعین نے اس کا نام عزیر علیہ السلام بتایا ہے اور بعض نے ارمیا، اور ظاہر ہے کہ اس کا ماخذ وہ اسرائیلی روایات ہیں جنھیں نہ سچا کہا جا سکتا ہے نہ ہی جھوٹا۔ واللہ اعلم ! البتہ یہ بات یقینی ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ان سے پوچھنا اور پھر اصل مدت بتانا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ کے نبی تھے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا اس بستی کو دوبارہ زندہ کرنا بعید کیوں سمجھا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ انھوں نے بعید سمجھ کر یہ سوال نہیں کیا تھا اور نہ انھیں قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس سے اطمینان حاصل کرنا مقصود تھا اور وہ دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو بعض حقیقتوں کا آنکھوں سے مشاہدہ کروا دیتا ہے۔ ان دونوں واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس شخص کا دوست اور کار ساز اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اسے کس طرح اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ (رازی) معلوم ہوتا ہے کہ جب اس نبی نے وفات پائی تھی تو اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب دوبارہ زندہ ہوئے تو سورج غروب ہونے کو تھا، اس لیے انھوں نے سو سال گزرنے کے باوجود یہ سمجھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ گزرا ہے۔