سورة الأنبياء - آیت 95

وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا ہو اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ (ہمارے پاس)[٨٥] لوٹ کر نہ آئیں (بلکہ انھیں آنا پڑے گا)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا....: اس آیت کے تین معنی ہو سکتے ہیں اور تینوں درست ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا اعجاز ہے کہ ایک آیت کئی معانی کی گنجائش رکھتی ہے۔ پہلے معنی کی صورت میں ’’حَرٰمٌ ‘‘ کا معنی ’’ممنوع‘‘ اور ’’ناممکن‘‘ ہے اور ’’ لَا يَرْجِعُوْنَ ‘‘ میں’’لَا‘‘ کا حرف زائد ہے، نفی کا معنی نہیں دے رہا، مگر بے فائدہ نہیں بلکہ ’’حَرٰمٌ‘‘کے معنی میں جو نفی پائی جاتی ہے اس میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا: ﴿ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ ﴾ [ صٓ : ۷۵ ] ’’تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ کرے؟‘‘دوسری جگہ فرمایا: ﴿ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ ﴾ [الأعراف:۱۲] ’’تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا؟‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ ’’ اَلَّا تَسْجُدَ ‘‘ میں ’’ لاَ ‘‘ زائد ہے اور ’’ مَنَعَكَ ‘‘ کے معنی میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ جس بستی کو ہم ہلاک کر دیں ناممکن ہے کہ وہ (دنیا میں) واپس لوٹیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ﴾ [ یٰسٓ : ۳۱ ] ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا، ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کر دیے کہ وہ ان کی طرف پلٹ کر نہیں آتے۔‘‘ دوسرے معنی کی صورت میں ’’ حَرٰمٌ ‘‘ کا معنی ’’ممنوع‘‘ اور ’’ناممکن‘‘ ہی ہو گا، مگر ’’ لَا يَرْجِعُوْنَ ‘‘ میں ’’ لَا ‘‘ نفی کے معنی میں ہو گا جو اس کا اصل ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ جس بستی کو ہم ہلاک کر دیں، ناممکن ہے کہ وہ (قیامت کے دن ہماری طرف) واپس نہ آئیں، بلکہ وہ ضرور ہماری طرف واپس لوٹیں گے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ یہاں ’’حَرٰمٌ ‘‘ کا لفظ لازم اور واجب کے معنی میں ہے، جیسا کہ ابن کثیر نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے فتح الباری (۱۱؍۵۰۳) اس صورت میں معنی یہ ہے کہ جس بستی کو ہم ہلاک کر دیں لازم ہے کہ وہ (دنیا میں) واپس نہیں لوٹیں گے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس معنی کو ترجیح دی ہے۔ شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر رحمہما اللہ نے بھی اسی مفہوم کو اختیار فرمایا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو تینوں معنوں کا نتیجہ ایک ہی ہے، البتہ اس میں سے وہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے جنھیں اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً بنی اسرائیل کا مقتول جو گائے کا کوئی حصہ مارنے سے زندہ ہوا وغیرہ۔