سورة البقرة - آیت 247

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ان کے نبی نے ان سے کہا کہ : اللہ نے تمہارے لیے طالوت [٣٤٥] کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے : ’’بھلا ہم پر حکومت کا حقدار وہ کیسے بن گیا ؟ اس سے زیادہ تو ہم خود حکومت کے حقدار ہیں اور اس کے پاس تو کچھ مال و دولت بھی نہیں‘‘ نبی نے کہا : ’’اللہ نے تم پر حکومت کے لیے اسے ہی منتخب کیا ہے۔ اور ذہنی اور جسمانی اہلیتیں اسے تم سے زیادہ دی ہیں اور اللہ جسے چاہے اپنی حکومت دے دے وہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا:ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ یہاں غور کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں طالوت کا نام بتا دیا، آگے چل کر داؤد علیہ السلام کا نام اور دشمنوں کے سردار جالوت کا نام بھی بتا دیا، مگر اس نبی کا نام نہیں بتایا۔ یقیناً اس میں کوئی حکمت ہے، جو بظاہر یہ ہے کہ نبی کوئی بھی ہو واجب الاطاعت ہوتا ہے، اس کا نام مشہور ہو یا نہ ہو۔ اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ ہم اس نبی کے نام کی تعیین کا تکلف نہ کریں۔ قَالُوْۤا اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا:طالوت کو بادشاہ مقرر کرنے پر سرداروں نے دو اعتراض کیے، ایک تو یہ کہ بادشاہ بننے کا حق ہم اس سے زیادہ رکھتے ہیں، کیونکہ خاندانی طور پر سرداری ہم میں چلی آ رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ طالوت کوئی سرمایہ دار شخص نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اب بھی دنیا میں سربراہ بننے کے لیے یہی دو پیمانے جاری ہیں، یا تو وہ کسی سربراہ خاندان سے ہو یا سرمایہ دار ہو۔ نبی نے دونوں چیزوں کی نفی کرکے انھیں بتایا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ طالوت کو اللہ تعالیٰ نے تم پر برتری عطا فرما کر چن لیا ہے، اب اللہ کے انتخاب پر اعتراض کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ دوسری یہ کہ حکومت کے لیے خاندان یا سرمایہ کے بجائے علم اور جسمانی قوت کا ہونا ضروری ہے اور یہ دونوں چیزیں طالوت میں تم سب سے زیادہ ہیں۔ تیسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بادشاہت عطا کرنے میں کسی کی مرضی کا پابند نہیں، وہ جسے چاہتا ہے سلطنت عطا کر دیتا ہے۔ 3۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملوکیت فی نفسہٖ کوئی بری چیز نہیں، اگر کوئی بادشاہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر چلے تو صرف بادشاہ ہونے کی بنا پر قابل رد نہیں۔ آپ اسے خلیفہ بھی کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ داؤد علیہ السلام کے متعلق خلیفہ کا لفظ بھی آیا ہے، فرمایا:﴿اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ﴾ [ صٓ:۲۶ ] ’’بے شک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہ ﴿وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ﴾ [البقرۃ:۲۵۱ ] ’’اور اللہ نے اسے بادشاہی عطا کی۔‘‘ اس لحاظ سے وہ طالوت کے بعد مَلِک (بادشاہ) بھی تھے۔