سورة الأنبياء - آیت 44

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو طویل مدت [٣٩] تک سامان زیست سے فائدہ پہنچایا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں۔ پھر کیا یہی غالب [٤٠] رہیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

بَلْ مَتَّعْنَا هٰؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ....: یعنی ان کے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے پروا ہونے، پیغمبر کا مذاق اڑانے اور جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ان پر جو مہربانی کی، انھیں اور ان کے آبا و اجداد کو دنیا کے سازو سامان سے فائدہ اٹھانے کا جو موقع دیا تو اس پر احسان مند ہونے کے بجائے اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ یہ نعمت ہمیشہ رہے گی، کبھی زائل نہ ہو گی، جیسا کہ فرمایا: ﴿اَوَ لَمْ تَكُوْنُوْا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ ﴾ [ إبراہیم : ۴۴ ] ’’اور کیا تم نے اس سے پہلے قسمیں نہ کھائی تھیں کہ تمھارے لیے کوئی بھی زوال نہیں۔‘‘ اور پھر ہوتے ہوتے اپنی خوش حالی میں اس قدر مست ہو گئے کہ سرے سے بھول ہی گئے کہ ان کے اوپر کوئی ان کا رب بھی ہے، جو جب چاہے عذاب بھیج کر ان کا نام و نشان مٹا سکتا ہے۔ 2۔ اَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا....: یعنی کیا یہ مشرکین جو عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اس عذاب کے آثار اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے کہ ہم ان کی زمین کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اسے مسلسل کم کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مسلمان شہروں پر شہر اور علاقوں پر علاقے فتح کرتے چلے جا رہے ہیں اور وہ وقت آ رہا ہے کہ ان کی مقبوضہ زمین گھٹتے گھٹتے ساری کی ساری ان کے قبضے سے نکل جائے گی، تو کیا پھر بھی یہی غالب ہوں گے؟ زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے آنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ زمین سے مراد زمین کے رہنے والے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ سْـَٔلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا ﴾ [ یوسف : ۸۲ ] ’’اور اس بستی سے پوچھ لیجیے جس میں ہم تھے۔‘‘ یہاں بستی سے مراد بستی میں رہنے والے ہیں۔ یعنی کیا یہ کافر ہماری زبردست قدرت اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے کہ بے سروسامان اور مظلوم و مقہور مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ان سرداروں کے ساتھی مسلمان ہوتے جا رہے ہیں، جس سے کفار کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے، جو آخر کار ختم ہو جانے والی ہے۔ تیسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ کیا یہ لوگ ہماری زبردست قدرت نہیں دیکھتے کہ ہم آسمانی اور زمینی آفات مثلاً طوفانوں، سیلابوں، زلزلوں، آتش فشاں پہاڑوں کی ہلاکت خیزیوں، جنگوں، وباؤں اور دوسرے عذابوں کی صورت میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرکے آباد زمینوں کو بے آباد کر دیتے ہیں؟ ان کے اردگرد ہود علیہ السلام ، صالح علیہ السلام ، لوط علیہ السلام اور قوم سبا کی برباد شدہ بستیاں ان کی آنکھوں کے سامنے ہیں، بھلا ہماری اس عظیم الشان قوت کے مقابلے میں یہ لوگ غالب ا ٓسکتے ہیں؟ پہلا مطلب الفاظ کے بہت قریب ہے، مگر سورت مکی ہونے کی وجہ سے آخری دو مطلب بیان کیے گئے ہیں، کیونکہ مکہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ مزید دیکھیے سورۂ رعد (۴۱)۔