مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ
ان منافقوں کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے (اندھیرے میں) آگ جلائی۔ جب اس آگ نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو (عین اس وقت) اللہ نے ان (کی آنکھوں) کے نور کو سلب کرلیا اور انہیں (پھرسے) اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ (کچھ بھی) دیکھ نہیں سکتے۔[٢٣]
1۔ اسْتَوْقَدَ نَارًا: ”اَوْ قَدَ نَارًا“ کے معنی ہیں اس نے آگ جلائی۔ ”اسْتَوْقَدَ“ میں سین اور تاء زیادہ ہونے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، اس لیے اس کا ترجمہ ’’ خوب بھڑکائی‘‘ کیا ہے۔ 2۔منافقین کی تشبیہ اس شخص سے کس طرح دی گئی جس نے ایک آگ خوب بھڑکائی، پھر اس کی آگ بجھ گئی اور اللہ ان کا نور لے گیا؟ جواب یہ ہے کہ دو وجہ سے، پہلی یہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لائے تو نور ایمان سے ان کے لیے ہر چیز روشن ہو گئی، پھر نفاق میں مبتلا ہو گئے تو وہ نور بجھ گیا اور وہ کفر و نفاق اور شکوک و شبہات کے کئی اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے : ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ ﴾ [ المنافقون : ۳ ] ’’ یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔‘‘ تشبیہ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایمان لانے کی وجہ سے دنیا میں انھیں مسلمانوں والی عزت حاصل ہوئی، مسلمانوں کے ساتھ ان کے رشتے ناتے رہے، وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے رہے، مال غنیمت اور دوسرے بے شمار فوائد حاصل کرتے رہے، مگر جب فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ عزت چھین لی، جیسے اس آگ والے سے اس کی روشنی چھین لی اور انھیں بہت سے اندھیروں (یعنی قبر، یوم محشر اور جہنم کے عذاب) میں چھوڑ دیا۔ (طبری عن ابن عباس بسند حسن)