سورة طه - آیت 111

وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

سب چہرے اس زندہ و پائندہ ہستی کے سامنے جھک جائیں گے اور جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔ وہ نامراد ہوا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ : ’’عَنَتْ‘‘ ’’عَنَا يَعْنُوْ عُنُوًّا‘‘ (ن)سے واحد مؤنث غائب،ماضی معلوم ہے، اصل میں ’’عَنَوَتْ‘‘ تھا، ذلیل اور عاجز ہو کر جھک جانا۔ اس میں سے اسم فاعل ’’عَانٍ‘‘ یا ’’اَلْعَانِيْ‘‘ آتا ہے، جس کا معنی قیدی ہے، کیونکہ قیدی بے حد عاجز، بے بس اور ذلیل ہوتا ہے۔ یعنی اس دن صرف تمام آوازیں ہی رحمان کے لیے پست نہیں ہوں گی بلکہ تمام چہرے، حتیٰ کہ ان سرکش متکبر لوگوں کے چہرے بھی اس حی و قیوم کے سامنے ذلیل قیدیوں کی طرح جھکے ہوں گے جن کی پیشانی دنیا میں کبھی اللہ کے سامنے جھکی نہ تھی۔ کیونکہ وہ سب فانی و محتاج ہیں اور انھیں حی و قیوم کے سامنے جھکے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ ’’ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ ‘‘ کی تفسیر آیت الکرسی (بقرہ : ۲۵۵) میں دیکھیے۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا: یہاں ’’ ظُلْمًا ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑے ظلم کا بوجھ اٹھایا‘‘ کیا ہے۔ بڑے ظلم سے مراد مشرک ہونا اور مسلمان نہ ہونا ہے۔ (طبری) اس کا ترجمہ ’’کسی ظلم کا بوجھ اٹھایا‘‘ درست نہیں، کیونکہ گناہ گار مومن و موحد سزا پا کر یا سزا کے بغیر اللہ کے اذن سے جنت میں چلے جائیں گے اور جنت میں پہنچ جانے والا ناکام نہیں۔ دلیل اور تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۸۲)، بقرہ (۲۵۴) اور یونس (۱۰۶) کی تفسیر۔