سورة طه - آیت 40

إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جب تمہاری بہن (لب ساحل تمہارے ساتھ ساتھ) چل رہی [٢٣] تھی۔ (اور جب فرعون نے صندوق اٹھا لیا) تو انھیں کہنے لگی : کیا میں تمہیں ایسے شخص کا پتہ دوں جو اس بچے کی (ٹھیک طرح) پرورش کرسکے؟ پھر ہم نے تمہاری ماں کے پاس لوٹا دیا تاکہ وہ اپنی آنکھ ٹھندی [٢٤] کرے اور غمزدہ نہ رہے۔ نیز تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا تو ہم نے تمہیں اس غم سے نجات [٢٥] دی پر تمہیں مختلف آزمائشوں سے گزارا۔ پھر تم کئی سال مدین والوں کے ہاں ٹھہرے رہے۔ پھر اب تم اے موسیٰ ! تقدیر کے مطابق ٹھیک رہے [٢٦]۔ وقت پر یہاں آگئے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ’’اِذْ تَمْشِيْ اُخْتُكَ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۱۱ تا ۱۳) اور ’’وَ قَتَلْتَ نَفْسًا ‘‘ سے آخر آیت تک کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۱۴ تا ۲۸)۔ وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا : ’’ فُتُوْنًا ‘‘ ’’فَتَنَ يَفْتِنُ‘‘ کا مصدر ہے، جیسا کہ ’’قُعُوْدٌ‘‘ اور ’’خُرُوْجٌ‘‘ وغیرہ ہیں۔ اس کی تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ’’اور ہم نے تجھے آزمایا، خوب آزمانا۔‘‘ اس آزمائش میں شاہ زادگی کی آسائشوں کے بعد ان کے ہاتھوں قبطی کا نادانستہ قتل، پھر اپنے قتل ہونے کا خوف، پھر بے سروسامانی میں فوری ہجرت، بھوکے پیاسے اور شدید خوف کی حالت میں کئی دن رات کا سفر، پردیس اور دس سالہ مزدوری سب شامل ہیں، جن سب میں زبردست تربیت کا سامان تھا۔ حافظ ابن کثیر نے ایک لمبی حدیث ’’حدیث فتون‘‘ مکمل ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے لیا گیا ہے۔ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى : یعنی تمھارا راہ بھول کر وادی طویٰ میں آنا اور میرے ساتھ کلام اور نبوت و رسالت سے سرفراز ہونا کسی طے شدہ منصوبے کے بغیر اور اچانک نہیں تھا، بلکہ عین میرے مقرر کردہ وقت اور فیصلے کے مطابق تھا۔ اگرچہ ہر کام ہی اللہ کی تقدیر سے ہے، مگر اس ’’ قَدَرٍ ‘‘ سے مراد خاص طور پر طے کرنا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا : ﴿ وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ ﴾ ’’صَنَعَ يَصْنَعُ‘‘ کا معنی بنانا ہے، ’’اِصْطَنَعَ‘‘ باب افتعال سے ہے، صاد کی مناسبت سے تاء کو طاء سے بدل دیا اور حروف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، یعنی میں نے تجھے خاص طور پر اپنے کام یعنی رسالت و نبوت کے لیے تیار کیا ہے۔ یہ تمام احسانات کا خلاصہ ہے.