سورة طه - آیت 39

أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کہ ''تم اس بچے (موسیٰ) کو صندوق میں رکھو پھر اس صندوق کو دریا [٢٢] میں ڈال دے۔ دریا اس صندوق کو ساحل پر پھینک دے گا جسے میرا اور موسیٰ کا دشمن اٹھا لے گا۔ پھر (اے موسیٰ) میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی (کہ جو کوئی تمہیں دیکھے پیار کرنے لگے) اور یہ اس لئے کیا کہ میری نگرانی میں تمہاری پرورش [٢٣] ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَنِ اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ....: یعنی تمھارا کام بس اتنا ہے کہ صندوق میں ڈال کر دریا (نیل) میں ڈال دو۔ آگے دریا کو ہمارا حکم یہ ہے کہ اسے راستے میں روکنے یا لے جا کر سمندر میں ڈالنے کے بجائے عین فرعون کے محل کے پاس ساحل پر لگا دے۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل سورۂ قصص (۷ تا ۱۳) میں ہے۔ وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ....: یعنی تمھاری صورت ایسی بنائی اور اس میں اپنی طرف سے ایسی انوکھی دل ربائی رکھی کہ جو کوئی تمھیں دیکھتا بے اختیار محبت کرنے لگتا۔ ’’ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْ ‘‘ کا عطف ’’ وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ‘‘ سے حاصل ہونے والے مفہوم پر ہے، جس کی تقدیر یوں ہو گی : ’’وَ أَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ لِتُحَبَّ وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ ‘‘ ’’اور میں نے تجھ پر ایک انوکھی محبت ڈال دی، تاکہ تجھ سے محبت کی جائے اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔‘‘ اس عطف کی مزید توجیہات مفصل کتب میں دیکھیں۔ ’’ مَحَبَّةً ‘‘ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے، اس لیے ’’ایک انوکھی محبت‘‘ ترجمہ کیا ہے، یعنی جو اسباب کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ بلااسباب خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔