قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَىٰ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’موسیٰ ! اسے (زمین پر) ڈال دو‘‘
1۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا تو اچانک وہ سانپ بن گیا جو دوڑتا تھا، یعنی حقیقی اور زندہ سانپ تھا۔ قرآن مجید میں اس کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں ’’ حَيَّةٌ ‘‘ (سانپ)، ’’ جَانٌّ ‘‘ (پتلا چھڑی جیسا چمکتا ہوا سانپ) اور ’’ ثُعْبَانٌ ‘‘ (بہت بڑا اژدہا)۔ معلوم ہوا کہ لاٹھی پھینکتے ہی پتلے سانپ جیسی بنی، پھر بڑھتے بڑھتے بہت بڑا اژدہا بن گئی۔ موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ ہو کر بے اختیار بھاگ اٹھے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ دیکھیے سورۂ نمل (۱۰) اور قصص (۳۱) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے پکڑو اور ڈرو نہیں، ہم اسے دوبارہ پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ 2۔ اہل علم نے لاٹھی کے ایک لمحہ میں سانپ اور پھر دوبارہ لاٹھی بننے میں کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنی قدرت کا عین الیقین عطا فرما دیا کہ کس طرح اس کے حکم سے ایک بے جان چیز اتنی خطرناک ہو جاتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی اور پھر کس طرح اتنی خطرناک چیز اس کے حکم سے بے جان لکڑی بن جاتی ہے، جو حرکت بھی نہیں کر سکتی۔ مقصد یہ یقین دلانا تھا کہ فرعون اپنی تمام تر قہرمانیوں کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ دوسری حکمت یہ کہ اس زمانے میں جادو اپنے عروج پر تھا، اس کے توڑ کے لیے یہ معجزہ دیا اور انھیں مشاہدہ بھی کروا دیا، تاکہ میدان میں لاٹھی کے سانپ بننے سے موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ ہو کر بھاگ نہ اٹھیں، بلکہ انھیں آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ قوت کا ہر وقت احساس رہے۔ تیسری حکمت بقاعی رحمہ اللہ نے ربط آیات کے ضمن میں لکھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے آغاز سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے آنے کا ذکر فرمایا ہے، جسے ’’اَلسَّاعَةُ‘‘ کہتے ہیں، یعنی ایک لمحہ، ایک گھڑی، قیامت کا ذکر کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو ایک لمحے میں لاٹھی کو سانپ اور سانپ کو لاٹھی بنا کر ایک گھڑی میں قیامت قائم ہونے کا مشاہدہ کروا دیا۔ (نظم الدرر)