سورة مريم - آیت 82

كَلَّا ۚ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ایسا ہرگز نہ ہوگا وہ معبود تو ان کی عبادت [٧٥] سے ہی انکار کردیں گے بلکہ الٹا ان کے مخالف بن جائیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَلَّا سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ : انکار اس معنی میں کریں گے کہ وہ کہیں گے، ہم نے کبھی ان سے نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو، یا ہمیں مصیبت کے وقت پکارو اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ وہ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۲۸، ۲۹)، نحل (۸۶)، قصص (۶۳)، فاطر (۱۳، ۱۴) اور احقاف (۵، ۶) اسی طرح کفار بھی اپنے معبودوں کی عبادت سے مکر جائیں گے اور ان کے خلاف ہو جائیں گے، بلکہ قسم کھا کر کہیں گے کہ اللہ کی قسم! ہم مشرک نہیں تھے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۲۳) بلکہ وہ اور ان کے معبود ایک دوسرے کو لعنت کریں گے۔ دیکھیے عنکبوت (۲۵) اور سورۂ بقرہ (۱۶۶، ۱۶۷)۔ وَ يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا : یعنی بجائے اس کے کہ وہ ان کے لیے بچاؤ یا عزت کا سبب بنیں، الٹا ان کی پکڑ کا سبب بنیں گے اور قیامت کے دن ان کے شدید مخالف اور ان کے لیے باعث حسرت ہوں گے۔ بے شمار معبودوں کے لیے ’’ ضِدًّا ‘‘ واحد کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ ’’ ضِدًّا ‘‘ کا لفظ مصدر ہے، جو واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان پوجنے والوں کے خلاف ان کے معبودوں کے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ان کو ’’شَيْءٌ وَاحِدٌ‘‘ (ایک ہی چیز) فرض کرکے واحد کا صیغہ لایا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے متعلق فرمایا : (( وَ هُمْ يَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاهُمْ )) [أبوداؤد، الدیات، باب أیُقاد المسلم من الکافر؟ : ۴۵۳۰۔ نسائی : ۴۷۳۸۔ صحیح الجامع : ۶۶۶۶ ] ’’وہ اپنے سوا سب کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہوتے ہیں۔‘‘