سورة مريم - آیت 42

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا : ابا جان! آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں [٣٩]، نہ دیکھتی ہیں اور نہ تمہارے کسی کام آسکتی ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ’’ يٰاَبَتِ ‘‘ کے معنی کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۴)۔ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ....: اس سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کا والد بت پرست تھا۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام(۷۴) ابراہیم علیہ السلام نے اسے نہایت ادب، نرمی، حسن اخلاق اور بہترین دلائل کے ساتھ بت پرستی ترک کرنے کی نصیحت کی کہ کہیں وہ بڑے پن اور ضد میں آکر حق سے انکار نہ کر دے۔ چنانچہ سب سے پہلے انھوں نے اس سے ان بتوں کو پوجنے کی وجہ پوچھی کہ جن کی کسی عقل مند کے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں، خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، کجا یہ کہ ان کی عبادت کی جائے، جو تعظیم، محبت اور عاجزی کا انتہائی مرتبہ ہے۔ کیونکہ عبادت تو اس کی ہونی چاہیے جو ہر طرح سے دوسروں سے غنی ہو، کسی کا محتاج نہ ہو، سب نعمتوں کا مالک ہو، سب کو پیدا کرنے والا، رزق دینے والا ہو، زندگی، موت، ثواب اور عذاب کا مالک ہو۔ ابراہیم علیہ السلام نے اسے توجہ دلائی کہ صاحب عقل کو لازم ہے کہ جو بھی کرے کسی صحیح مقصد کے لیے کرے۔ کوئی بھی چیز یا شخص جو زندہ ہو، صاحب عقل ہو، سنتا دیکھتا ہو، کوئی فائدہ یا نقصان بھی پہنچا سکتا ہو مگر عدم سے وجود میں آیا ہو اور اس کا اختیار کسی اور کا عطا کردہ ہو تو عقل سلیم اس کی عبادت میں عار محسوس کرے گی، خواہ وہ کتنی اونچی مخلوق مثلاً انسان ہو یا فرشتہ، کیونکہ وہ خود اپنی ضروریات کے لیے اس ہستی کا محتاج ہے جو نہ اپنے وجود میں کسی کی محتاج ہے اور نہ اپنی بقا میں۔ پھر پتھر، لکڑی یا دھات کے بنے ہوئے بت یا مٹی اور اینٹوں سے بنی ہوئی قبریں کہ جن میں زندہ لوگوں والی کوئی خوبی ہے ہی نہیں، جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں، نہ کسی کے کام آ سکیں، ان کی عبادت کیوں؟