فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا
پھر زچگی کی درد انھیں ایک کھجور کے تنے تک لے آئی تو کہنے لگیں، کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور میرا [٢٤] نام و نشان بھی باقی نہ رہتا۔
1۔ فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ....: ’’ جَاءَ يَجِيْئُ مَجِيْئًا ‘‘ کا معنی ہے آنا اور’’أَجَاءَ يُجِيْئُ ‘‘ (افعال) کا معنی ہے لانا، مگر اس کے مفہوم میں مجبور کرکے لانا پایا جاتا ہے۔ (زمخشری) ’’الْمَخَاضُ ‘‘ عورت کو بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والا درد، یعنی درد زِہ۔ ’’مَخِضَتِ الْمَرْأَةُ ‘‘ (ع) جب عورت کے ہاں پیدائش کا وقت قریب ہو۔ یہ ’’مَخْضٌ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی شدید حرکت ہے اور یہ نام رکھنے کی وجہ ولادت کے قریب ماں کے پیٹ میں بچے کا شدت سے حرکت کرنا ہے۔ یعنی درد زِہ کی شدت سے مجبور ہو کر وہ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور آنے والے وقت کا تصور کرکے، جب ہر طرف سے برائی کی تہمت لگے گی، طعنے ملیں گے، گزشتہ زندگی کی ساری نیکی، پاک بازی اور شرافت کا خاکہ اڑایا جائے گا، کہنے لگیں کہ اے کاش! میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور کسی کو یاد ہی نہ ہوتا کہ کوئی مریم بھی تھی۔ 2۔ یہ آیت دلیل ہے کہ دین میں فتنے کے وقت موت کی تمنا جائز ہے۔ حدیث میں کسی تکلیف مثلاً مرض یا فقر وغیرہ کی وجہ سے موت کی تمنا سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے پہنچے، ہر گز نہ کرے، اگر اسے ضرور ہی کرنی ہے تو یوں کہے : (( اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِّيْ وَتَوَفَّنِيْ إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِّيْ )) ’’اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہو اور مجھے فوت کر لے جب وفات میرے لیے بہتر ہو۔‘‘ [ بخاری، المرضٰی، باب تمنی المریض الموت : ۵۶۷۱ ]