قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۖ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا
وہ بولے ہاں! ایسا [٢٢] ہی ہوگا تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ میرے لئے یہ آسان سی بات ہے اور اس لیے بھی (ایسا ہوگا) کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور وہ ہماری طرف سے رحمت ہوگا اور یہ کام ہو کے رہے گا
1۔ قَالَ كَذٰلِكِ : جبریل علیہ السلام نے کہا، ایسے ہی ہو گاکہ نکاح یا زنا کے بغیر ہی تمھیں بیٹا عطا ہو گا۔ 2۔ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ : مزید کہا کہ تیرے رب نے فرمایا ہے کہ کسی مرد کے بغیر تجھے بیٹا دینا میرے لیے بالکل آسان ہے۔ 3۔ وَ لِنَجْعَلَهٗ....: واؤ کے بعد یہاں الفاظ محذوف ہیں، یعنی اور (ہم نے اس طرح کیا) تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی بہت بڑی نشانی اور معجزہ بنائیں کہ ہم صرف عورت سے بھی انسان پیدا کر سکتے ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے تین نشانیاں موجود ہیں کہ ماں باپ کے بغیر انسان (آدم علیہ السلام )، ماں کے بغیر انسان (حوا علیھا السلام) اور ماں باپ دونوں کے ساتھ انسان۔ تینوں ہماری قدرتِ کاملہ کا اظہار ہیں، اب اس سے ہماری قدرت کی چوتھی نشانی بھی پوری ہو گئی۔ چاروں میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا کسی کے بس میں نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا، انسان تو دور، ایک مکھی پیدا کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں۔ دیکھیے سورۂ حج (۷۳) اس لحاظ سے ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کی دلیل ہے۔ وَ فِيْ كُلِّ شَيْءٍ لَهُ آيَةٌ تَدُلُّ عَلٰي أَنَّهُ وَاحِدٌ شرک کے بیماروں کو دیکھیے، وہ مسیح علیہ السلام کا خالق جبریل علیہ السلام کو قرار دے رہے ہیں۔ [ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ عَافَانَا مِنْ بَلِیَّۃِ الْإِشْرَاکِ بِہِ وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِيَ لَوْ لَا أَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ ] 4۔ وَ رَحْمَةً مِّنَّا : اور اسے اپنی طرف سے عظیم رحمت بنائیں بنی اسرائیل کے لیے اور قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے بھی، کیونکہ مسیح علیہ السلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دی اور آپ پر ایمان لانے اور آپ کی پیروی کا حکم دیا، اس طرح وہ ان کے لیے جہنم سے نجات اور جنت میں داخلے کا باعث بنے۔ ’’اٰيَةً ‘‘ اور ’’ رَحْمَةً ‘‘ میں تنوین تعظیم و تفخیم کے لیے ہے، لہٰذا ترجمہ بہت بڑی نشانی اور عظیم رحمت کیا گیا ہے۔ 5۔ وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا : ’’ مَقْضِيًّا ‘‘ ’’قَضَي يَقْضِيْ‘‘ کا اسم مفعول ہے، جو اصل میں ’’مَقْضُوْيٌ‘‘ تھا، معنی فیصلہ کیا ہوا۔ ’’كَانَ ‘‘ ہمیشگی کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’شروع سے طے کیا ہوا‘‘ کیا ہے، یعنی یہ بات تقدیر میں طے ہو چکی ہے، کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔