قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا
وہ بولیں : ’’میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا جبکہ مجھے کسی انسان [٢١] نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں‘‘
قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ....: ’’ بَغِيًّا ‘‘ کا معنی زانیہ ہے، اس کی جمع ’’ بَغَايَا ‘‘ اور مصدر ’’ بِغَاءٌ ‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ ﴾ [النور : ۳۳ ] ’’اور اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو۔‘‘ مریم علیھاالسلام نے کہا کہ اولاد کے لیے تو مرد اور عورت کا ملنا ضروری ہے، جبکہ مجھے نہ کسی بشر نے نکاح کے ساتھ چھوا ہے اور نہ میں بدکار ہوں۔ ’’ لَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ‘‘ میں اگرچہ نکاح یا زنا کسی بھی طریقے سے کسی مرد کے چھونے کی نفی ہے اور یہی معنی سورۂ آل عمران (۴۷) میں مراد ہے، مگر یہاں زنا کے مقابلے میں آنے کی وجہ سے چھونے کا مطلب نکاح کے ساتھ چھونا ہے۔