فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا
اور پردہ ڈال کر ان سے چھپ [١٧] گئی تھی۔ اس وقت ہم نے اس کی طرف اپنی روح [١٨] (فرشتہ) کو بھیجا جو ایک تندرست انسان کی شکل میں مریم کے سامنے آگیا۔
1۔ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا : ایام سے فارغ ہونے پر غسل کے لیے پردہ تان لیا، یا عبادت میں مکمل تنہائی کے لیے۔ 2۔ فَاَرْسَلْنَا اِلَيْهَا رُوْحَنَا : روح سے مراد یہاں جبریل علیہ السلام ہیں، جیسا کہ سورۂ شعراء (۱۹۳) اور سورۂ قدر (۴) میں انھی کے متعلق روح کا لفظ آیا ہے۔ اگرچہ ہر روح کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر جبریل علیہ السلام کو خاص طور پر اپنا قرار دینے میں ان کی شان کی بلندی کا اظہار ہے، جیسا کہ ہر گھر اور ہر اونٹنی اللہ کی ملکیت ہے، مگر بیت اللہ اور ناقۃ اللہ کی شان انوکھی ہے۔ اس لیے ’’ رُوْحَنَا ‘‘ کا ترجمہ ’’اپنا خاص فرشتہ‘‘ کیا ہے۔ 3۔ فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا : ’’ سَوِيًّا ‘‘ پورے اعضا والا تندرست (انسان)۔ جبریل علیہ السلام انسان کی شکل میں اس لیے آئے کہ مریم علیھا السلام کے لیے انھیں ان کی اصل صورت میں دیکھنا شدید خوف کا باعث یا ناقابل برداشت ہوتا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زندگی میں جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں صرف دو بار دیکھا ہے۔ دیکھیے سورۂ نجم (۵ تا ۱۸) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ کے حکم سے اپنی شکل بدل سکتے ہیں۔