قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا
زکریا نے عرض کیا : '' پروردگار! پھر میرے لئے کوئی نشانی مقرر کردے'' اللہ تعالیٰ نے فرمایا''تیرے لئے نشانی [١٢] یہ ہے کہ تو مسلسل تین رات تک لوگوں سے گفتگو نہ کرسکے گا''
1۔ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْ اٰيَةً: یعنی کوئی ایسی نشانی بتا دے کہ ان حالات میں ہمارے ہاں لڑکے کی پیدائش ہونے والی ہو تو مجھے پہلے سے اس کا پتا چل جائے۔ 2۔ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ....: ’’ سَوِيًّا ‘‘ تندرست، صحیح اعضا والا نہ گونگا نہ بہرا۔ یہاں تین راتوں کا ذکر ہے، جبکہ سورۂ آل عمران میں تین دنوں کا ذکر ہے، یعنی نشانی یہ ہے کہ تین دن رات صحیح سالم، تندرست ہوتے ہوئے تم لوگوں سے بات چیت نہ کر سکو تو سمجھ لو کہ حمل قرار پا گیا۔ لوگوں کے ساتھ کلام سے زبان بند ہو گئی تھی، اللہ کے ذکر اور تسبیح و تحمید سے نہیں۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۴۱)۔