سورة الكهف - آیت 77

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

چنانچہ پھر وہ دونوں چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ دونوں ایک بستی والوں کے پاس آئے۔ اور ان سے کھانا مانگا۔ مگر ان لوگوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کردیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔ (خضر نے) اس دیوار کو پھر سے قائم کردیا۔ موسیٰ نے (خضر سے) کہا : ''اگر آپ چاہتے تو ان سے [٦٥] اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اسْتَطْعَمَا اَهْلَهَا : بعض صوفیوں نے اس آیت سے گدائی کے مستحب ہونے کا استدلال کیا ہے اور اسے باقاعدہ سالک کے آداب میں شمار کیا ہے، اس لیے عموماً صوفی لوگ روزی کمانے کے بجائے گدائی کو اور دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کو کمال ولایت و توکل سمجھتے ہیں اور اس کام میں مہارت رکھتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی جہالت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا زَالَ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِيْ وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ )) [بخاري، الزکوٰۃ، باب من سأل تکثرًا : ۱۴۷۴۔ مسلم :104؍1040] ’’آدمی لوگو ں سے مانگتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہیں ہو گی۔‘‘ ان دونوں انبیاء نے اپنے حق کا سوال کیا ہے جو بطور ضیافت بستی والوں پر فرض تھا۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: (( إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ لَا يَقْرُوْنَنَا، فَمَا تَرَی فِيْهِ؟ فَقَالَ لَنَا إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأُمِرَ لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِيْ لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوْا، فَإِنْ لَّمْ يَفْعَلُوْا فَخُذُوْا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ ))خاري، المظالم، باب قصاص المظلوم إذا وجد مال ظالمہ : ۲۴۶۱۔ مسلم : ۱۷۲۷ ] ’’آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم کسی قوم کے پاس جاتے ہیں اور وہ ہماری ضیافت نہیں کرتے، تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا : ’’اگر تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور تمھارے لیے ان چیزوں کا حکم دیا جائے جو مہمان کے لیے چاہییں تو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا حق لے لو۔‘‘