قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا
اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران اسے کہا : ’’ کیا تو اس ذات کا [٣٧] انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا‘‘
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ هُوَ يُحَاوِرُهٗ ....: ’’ تُرَابٍ ‘‘ اور ’’ نُطْفَةٍ ‘‘ کی تنوین تحقیر کے لیے ہے۔ اس کے مومن ساتھی نے، جسے وہ اپنے مال و جاہ پر فخر کرتے ہوئے فقر کا طعنہ دے رہا تھا، اس سے گفتگو کرتے ہوئے اسے جواب میں کفر کا طعنہ دیا اور کہا کیا تو نے اس ہستی سے کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے، پھر ایک قطرے سے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک ایک آدمی بنا دیا۔ دیکھیے حج (۵)، بقرہ (۲۸) اور مومنون (۱۲ تا ۱۴) تفسیر وحیدی میں ہے : ’’افسوس کہ اکثر مسلمان مال دار بھی اسی غرور میں مبتلا ہیں، مساکین بلکہ علماء و صلحاء تک کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔‘‘