قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا
آپ ان سے کہئے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے جتنی مدت وہ ٹھہرے رہے، اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں معلوم ہیں۔ وہ کیا ہی خوب دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔ ان چیزوں کا اللہ کے سوا کوئی کارساز اور منتظم نہیں [٢٦] اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
1۔ قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ....: یعنی اگر اہل کتاب آپ سے اس مدت میں اختلاف کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا علم تم سے زیادہ ہے، لہٰذا جو مدت اس نے بتائی ہے وہی صحیح ہے، تمھاری بات کا اعتبار نہیں۔ 2۔ لَهٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ ....: یہ اللہ کے ’’ اَعْلَمُ ‘‘ ہونے کی دلیل ہے کہ آسمانوں کا اور زمین کا غیب صرف اس کے پاس ہے۔ رہا دیکھنے اور سننے کے ذریعے سے علم تو وہ کس قدر دیکھنے والا اور کس قدر سننے والا ہے، اس پر تعجب تو ہو سکتا ہے، بیان میں نہیں آ سکتا۔ تو پھر اس کی بات درست ہے یا ان کی جو ان صفات سے خالی ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں کسی کو بھی شریک نہیں کرتا۔