وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا
جسے اللہ ہدایت دے دے وہی ہدایت پاسکتا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تو ایسے لوگوں کے لئے اللہ کے سوا آپ کوئی مددگار نہ پائیں گے اور قیامت کے دن ہم انھیں اوندھے منہ اندھے [١١٥]، گونگے اور بہرے (بنا کر) اٹھائیں گے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جب بھی اس کی آگ بجھنے لگی گی ہم اسے ان پر اور بھڑکا دیں گے۔
1۔ وَ مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ....: نبوت پر ان کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب انھیں وعید سنائی۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے بل بوتے پر یا اپنی عقل، علم یا کسی اور چیز کی بنیاد پر راہِ حق نہیں پا سکتا اور نہ اس پر ثابت قدم رہ سکتا ہے، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری ہے جو کسی کو راہ حق دکھاتی ہے اور اگر انسان کی بدبختی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی توفیق انسان کے شامل حال نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے راہِ راست پر نہیں لا سکتی۔ اس سے مقصود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے۔ (رازی) ’’ وَ مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ‘‘ میں ہدایت یافتہ کو واحد کے صیغے سے اور ’’وَ مَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِيَآءَ ‘‘ میں گمراہ کر دہ لوگوں کو جمع کے صیغے سے بیان فرمایا، اس میں حکمت یہ ہے کہ ہدایت کا راستہ ایک ہے، اس پر چلنے والے ایک ہی جماعت ہیں، جبکہ ضلالت کے بے شمار راستے ہیں اور ان پر چلنے والے گروہ بے شمار ہیں۔ (واللہ اعلم) 2۔ وَ نَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ....: یعنی منہ کے بل چلیں گے، جیسے دنیا میں پاؤں کے بل چلتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’لوگ اپنے چہروں پر کس طرح اکٹھے کیے جائیں گے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلَيْسَ الَّذِيْ أَمْشَاهُ عَلَی الرِّجْلَيْنِ فِي الدُّنْيَا قَادِرًا عَلٰی أَنْ يُمْشِيَهُ عَلٰی وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ )) ’’جس نے انھیں ان کے پاؤں کے بل چلایا ہے وہ انھیں قیامت کے دن ان کے چہروں کے بل چلانے پر بھی قادر ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، سورۃ الفرقان، باب قولہ : ﴿الذین یحشرون علٰی وجوہہم إلٰی جہنم ﴾ : ۴۷۶۰۔ مسلم : ۲۸۰۶ ] ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن انھیں منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا، جیسے فرمایا : ﴿يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ ﴾ [ القمر : ۴۸ ] ’’جس دن وہ آگ میں اپنے چہروں پر گھسیٹے جائیں گے، چکھو آگ کا چھونا۔‘‘ دونوں صورتیں بھی مراد ہو سکتی ہیں کہ حشر کے دن وہ منہ کے بل الٹے چلتے ہوئے آئیں گے، پھر فرشتے چہروں کے بل گھسیٹتے ہوئے انھیں جہنم میں پھینک دیں گے۔ 3۔ عُمْيًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا : اندھے، گونگے اور بہرے۔ بعض آیات میں ان کے قیامت کے دن دیکھنے، بولنے اور سننے کا ذکر آیا ہے، تو ایک تطبیق یہ ہے کہ قیامت کے پچاس ہزار سال کے برابر دن کے مختلف اوقات میں ان کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ دوسری یہ کہ وہ جمالِ الٰہی کے دیدار اور جنت کی نعمتوں کے دیکھنے سے محروم ہوں گے، کوئی خوش کن خبر نہیں سنیں گے اور نہ کوئی دلیل بیان کرنے کی طاقت ہو گی، ورنہ حواس خمسہ ظاہرہ کے اعتبار سے تو وہ بہت سننے اور دیکھنے والے ہوں گے۔ دیکھیے سورۂ مریم (۳۸) اور سورۂ طور (15،14)۔ 4۔ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا : ’’ خَبَتْ‘‘ اصل میں ’’خَبَوَتْ‘‘ ہے، ’’خَبَا يَخْبُوْ‘‘ سے واحد مؤنث غائب ماضی معلوم ہے، مصدر’’خَبْوًا وَ خُبُوًّا‘‘ ہے، آگ کی تیزی کا ہلکا ہونا یا بجھنا، یعنی عذاب کبھی ہلکا نہ ہو گا، جیسے فرمایا : ﴿فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۸۶ ] ’’سو نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔‘‘