وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا
اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن [١٩] بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ ....: اس آیت میں عمل کی قبولیت کی تین شرطیں بیان ہوئی ہیں، جن میں بنیادی شرط ’’وَ هُوَ مُؤْمِنٌ ‘‘ یعنی ایمان ہے، یہ بات بہت سی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۲۴)، نحل (۹۷) اور مومن (۴۰) وغیرہ۔ کافر کے نیک اعمال قیامت کے دن بے کار ہوں گے۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۱۸)، فرقان (۲۳) اور نور (۳۹) وغیرہ۔ کیونکہ کافر کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں اسے دے دیا جاتا ہے۔ دیکھیے ہود (۱۵، ۱۶)، شوریٰ (۲۰) احقاف (۲۰) وغیرہ۔ کافر کی نیکیوں کی مثال صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور مظلوموں کی مدد وغیرہ ہے۔ دوسری شرط اخلاص ہے، جو ’’اَرَادَ الْاٰخِرَةَ ‘‘ سے ظاہر ہے اور تیسری شرط آخرت کے لائق عمل صالح ہے، جو ’’ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا ‘‘ سے ظاہر ہو رہی ہے اور یہ وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، ایسے عمل کا بدلہ ضرور ملے گا اور کئی گنا یا بے حساب ملے گا، جیسا کہ کئی آیات میں مذکور ہے : ﴿اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ [ الزمر : ۱۰ ] ’’صرف کامل صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘ تو جس سعی کو اللہ تعالیٰ مشکور قرار دے وہ ایسی ہی ہوتی ہے۔