وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا
نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کردیں [١٧] اور آپ کا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار رہنے اور دیکھنے کو کافی ہے۔
1۔ وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ: یہ ’’ كَمْ ‘‘ خبر یہ ہے، جس کا معنی ہے ’’بہت۔‘‘ قرن ایک زمانے کے لوگ، عام طور پر یہ مدت ایک سو سال بتائی جاتی ہے۔ رسولوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم آنے کے بعد ان کی نافرمانی (فسق) کی وجہ سے نوح علیہ السلام کے بعد ہلاک ہونے والی قوموں اور نسلوں کا بطور مثال ذکر فرمایا کہ مت پوچھو کہ کتنی نسلوں کو ہم نے ہلاک کر دیا، مثلاً عاد، ثمود، شعیب اور لوط علیہ السلام کی قومیں اور قوم فرعون وغیرہ۔ نوح علیہ السلام کے بعد اس لیے فرمایا کہ اس سے پہلے لوگ سب توحید پر تھے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۳)۔ 2۔ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ ....: اس جملے کا یہاں دو طرح سے تعلق ہے، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام قرون کو ان کے گناہوں کی پاداش ہی میں ہلاک کیا، کیونکہ وہ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے اور دیکھنے والا ہونے میں بہت ہی کافی ہے۔ ’’ كَفٰى بِرَبِّكَ ‘‘ کی ترکیب کے لیے اسی سورت کی آیت (۱۴) ملاحظہ فرمائیں۔ دوسرا تعلق یہ ہے کہ کفار قریش اور پوری امت کو تنبیہ فرمائی کہ یہ مت سمجھنا کہ یہ معاملہ صرف انھی قوموں کے ساتھ ہوا، بلکہ اگر تم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے احکام نہیں مانو گے اور فسق و فجور کا ارتکاب کرو گے تو تمھارے ساتھ بھی اسی طرح ہو گا، اس لیے اپنی اصلاح کرلو۔ اس میں نافرمانوں کو وعید کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانشینوں کے لیے تسلی بھی ہے۔