سورة الإسراء - آیت 2

وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِن دُونِي وَكِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کی ہدایت [٤] کا ذریعہ بنایا (اور اس میں انھیں حکم دیا) کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بنانا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: یعنی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء کا شرف عطا فرمایا، اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو ’’الْكِتٰبَ ‘‘ (تورات) سے نوازا۔ قرآن مجید میں عموماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا ذکر ہوتا ہے، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت میں پیش آنے والی مشکلات کی مثال پیش نظر رہے اور آپ کی امت کو رسول کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے نتائج پیش نظر رہیں۔ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ : اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا، یعنی تورات کو یا موسیٰ علیہ السلام کو۔ یہ آیت سورۂ سجدہ کی آیت (۲۳) کے مشابہ ہے۔ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ وَكِيْلًا: ’’ اَلَّا تَتَّخِذُوْا ‘‘ اصل میں ’’أَنْ لَا تَتَّخِذُوْا‘‘ ہے۔ یہاں ’’أَنْ‘‘ کو مصدریہ مان کر اس سے پہلے لام محذوف مانیں گے، یعنی ’’لِئَلَّا تَتَّخِذُوْا‘‘ (تاکہ تم…) یا ’’أَنْ‘‘ بمعنی ’’أَيْ‘‘ (تفسیر یہ) ہے، یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جس کا خلاصہ اور مطلب یہ ہے کہ…۔ ’’ وَكِيْلًا ‘‘ ’’وَكَلَ يَكِلُ‘‘ (سپرد کرنا) سے ’’فَعِيْلٌ‘‘ بمعنی مفعول ہے، جس کے سپرد اپنا کام کیا جائے، یعنی میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ سمجھو، نہ اپنے کام کسی اور کے سپرد کرو۔