إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
بلاشبہ! ابراہیم (اپنی ذات میں) ایک امت تھے۔ اللہ کے فرمانبردار اور یکسو رہنے والے تھے۔ وہ ہرگز [١٢٣] مشرک نہ تھے
1۔ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا ....: ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی: ﴿ وَ اجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ ﴾ [ الشعراء : ۸۴ ] ’’اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔‘‘ اس لیے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ میں سے ہر ایک ابراہیم علیہ السلام کی عزت و تکریم کرنے والا اور ان کی ملت کا متبع ہونے کا دعوے دار تھا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ تَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ (108) سَلٰمٌ عَلٰى اِبْرٰهِيْمَ ﴾ [ الصافات : ۱۰۸، ۱۰۹ ] ’’اور پیچھے آنے والوں میں اس کے لیے یہ بات چھوڑی کہ ابراہیم پر سلام ہو۔‘‘ یعنی بعد میں آنے والے سب لوگ ان پر سلام بھیجیں گے، اس لیے اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی صفات اور ان کا منہج بیان فرمایا، جس سے واضح ہو رہا ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی ملت ابراہیم پر قائم نہیں ہے۔ 2۔ اُمَّةً : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی پہلی صفت ’’ اُمَّةً ‘‘ بیان فرمائی۔ اس آیت میں لفظ ’’ اُمَّةً ‘‘ کا معنی پیشوا اور امام بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ﴾ [ البقرۃ : ۱۲۴ ] ’’بے شک میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔‘‘ اور یہ بھی کہ وہ اکیلے ہی ایک امت (جماعت) تھے، کیونکہ اکیلے ہی میں اتنے کمالات تھے جو ایک جماعت میں ہوتے ہیں اور اکیلے شخص نے اتنا کام کیا جو ایک امت کے برابر تھا۔ تیسرا معنی یہ کہ ایک مدت تک اکیلے ہی وہ اور ان کی بیوی امت مسلمہ تھے، جیسا کہ جبار مصر اور سارہ علیھا السلام کے واقعہ میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیھا السلام سے کہا کہ اس وقت اس سرزمین میں میرے اور تمھارے سوا کوئی مومن نہیں، سو تم ایمان میں میری بہن ہو۔ [ بخاری : ۳۳۵۸ ] 3۔ دوسری صفت ’’قَانِتًا لِّلّٰهِ ‘‘ بیان فرمائی، یعنی اللہ کے فرماں بردار نہایت عاجزی کے ساتھ، کیونکہ ان دونوں کے مجموعی مفہوم کو قنوت کہتے ہیں۔ 4۔ ’’ حَنِيْفًا ‘‘ تیسری صفت ہے، ’’حَنَفٌ‘‘ کا معنی ہے ایک طرف جھک جانا، یعنی تمام باطل دینوں سے ہٹ کر حق کی طرف مائل ہونے والا، تمام خداؤں کا انکار کرکے صرف ایک اللہ کی طرف ہو جانے والا۔ جس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، زندگی اور موت سب ایک اللہ کے لیے تھے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۶۱ تا ۱۶۳) ۔ 5۔ وَ لَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ: یہ مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ پر تعریض اور ان سب کے ابراہیمی ہونے کے دعویٰ کی نفی کا اظہار ہے کہ وہ تو مشرکوں میں سے نہیں تھے، جب کہ تم سب بتوں کو یا قبروں کو، عزیر یا عیسیٰ علیھما السلام کو اور اپنے احبار و رہبان کو رب بنا کر شرک میں گرفتار ہو چکے ہو۔