سورة النحل - آیت 116

وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو جھوٹ تمہاری زبانوں پر آجائے اس کی بنا پر یوں نہ کہا کرو کہ ’’یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے‘‘ کہ تم اللہ پر جھوٹ [١١٩] افترا کرنے لگو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ ....: ’’ اَلْسِنَةٌ ‘‘ ’’ لِسَانٌ ‘‘ کی جمع ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے حلال و حرام کو خود واضح فرما دیا ہے تو اب اسی کے پابند رہو اور یہ جرأت مت کرو کہ تمھاری زبانیں جسے جھوٹ سے حلال کہہ دیں اسے حلال اور جسے حرام کہہ دیں اسے حرام قرار دے لو، اگر ایسا کرو گے تو یہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہو گا اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے، اگر اس کے بدلے انھیں دنیا میں کچھ فائدہ حاصل بھی ہو جائے، خواہ پوری دنیا مل جائے، وہ بہت ہی تھوڑا سامان ہے، کیونکہ یہ سامان ہر حال میں ختم ہو جانے والا ہے، پھر ان کا ہمیشہ کا ٹھکانا جہنم ہے۔ مشرکین کے اپنے پاس سے حلال و حرام بنانے کی مثالوں کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۰۳، ۱۰۴)، انعام (۱۳۸ تا ۱۴۰) اور سورۂ یونس (۵۹، ۶۰)۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا، اس آیت میں ہر وہ شخص داخل ہے جو دین میں کوئی نئی بات (بدعت) ایجاد کرے، جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو، یا محض اپنی عقل اور رائے سے اللہ کی حلال کردہ چیز کے حرام یا حرام کردہ چیز کے حلال ہونے کا فتویٰ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے صحیح ہونے پر تو ساری امت کا اتفاق ہے : (( مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ )) ‘‘ [بخاری، العلم، باب إثم من کذب علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۱۰۷۔ مسلم، المقدمۃ : ۳ ] ’’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے (کیونکہ یہ درحقیقت اللہ پر جھوٹ ہے)۔ ‘‘