سورة البقرة - آیت 194

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ماہ حرام میں جنگ کا بدلہ ماہ حرام میں ہی ہوگا۔ اور تمام حرمتوں میں [٢٥٧] بدلہ یہی (برابری کی) صورت ہوگی۔ لہٰذا اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے تم پر کی ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ ڈرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ذوالقعدہ ۶ ھ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا، مگر آخرکار صلح ہو گئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کر لیں۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے، پھر جب دوسرے سال ۷ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو انھیں اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں تولڑائی منع ہے، لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ سے روک دیا تو ہم کیا کریں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(ابن کثیر) یعنی (حرمت والے مہینوں کی حرمت کی پاس داری کفار کی طرف سے ان کی حرمت کی پاس داری کے مقابلے میں ہے) اگر وہ حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بدعہدی کریں تو تم بھی حرم کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی، ابن کثیر) واضح رہے کہ حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ اگرچہ زیادتی کے جواب کو زیادتی نہیں کہا جاتا بلکہ وہ عین حق ہے، مگر یہ صرف لفظ کی حد تک مشابہت ہے کہ”فَمَنِ اعْتَدٰى“کے مقابلے میں لفظ ”فَاعْتَدُوْا“آیا ہے، جیسے فرمایا:﴿وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ﴾ [الشوریٰ:۴۰ ] ’’ اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے۔‘‘