فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پھر جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے [١٠٢] اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ....: ہدایت کا سرچشمہ قرآن کریم ہے، ادھر گمراہی کا سرچشمہ شیطان ہے، جو انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اسے کسی صورت آدمی کا قرآن پڑھنا برداشت نہیں، سو وہ ہر حال میں اسے قرآن پڑھنے سے باز رکھتا ہے اور اگر کوئی پڑھنے لگے تو اس کے دل میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لو۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھنے سے پہلے ’’أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ‘‘ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ اللہ کی پناہ کی دعا کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہی ہمیں اس ظالم سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ شیطان انسان بھی ہوتے ہیں، جن بھی۔ (دیکھیے انعام : ۱۱۲) ان سے پناہ کی دعا کے ساتھ ان سے بچنے کے ذرائع اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان سے میل جول اور دلی دوستی رکھے اور ’’أَعُوْذُ بِاللّٰهِ‘‘ پڑھ کر اپنے آپ کو ان سے محفوظ سمجھے تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو توپ کے گولوں سے اوٹ لیے بغیر اللہ سے پناہ مانگتا رہے اور اپنے آپ کو گولوں سے محفوظ سمجھے۔