سورة النحل - آیت 95

وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ إِنَّمَا عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اللہ سے کئے ہوئے عہد کو تھوڑی سی [٩٩] قیمت کے عوض مت بیچو کیونکہ جو کچھ (اجر) اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اگر تم جانو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِيْلًا : اوپر کی آیات میں باہمی معاہدوں کی پابندی پر زور دیا، اب بتایا کہ ایمان لا کر جو اللہ سے عہد باندھا ہے اسے مت توڑو، یعنی مال کے طمع میں آ کر شریعت کی خلاف ورزی نہ کرو (جس میں باہمی معاہدوں کو توڑنا بھی ہے) جو مال خلاف شرع ہاتھ آئے وہ موجب وبال ہے۔ (موضح) کم قیمت سے مراد یہ نہیں کہ زیادہ قیمت لے لو، بلکہ مراد دنیا کا مال ہے، جو قلیل ہی ہے، خواہ پوری دنیا ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ﴾ [ النساء : ۷۷ ] ’’کہہ دے دنیا کا سامان بہت ہی تھوڑا ہے۔‘‘ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ : یہ ’’ اِنَّمَا ‘‘ کلمۂ حصر نہیں بلکہ ’’اِنَّ مَا‘‘ ہے، جو مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق اکٹھا لکھا گیا ہے۔ ’’مَا‘‘ موصولہ میں مقدر ضمیر کی تاکید ’’ هُوَ ‘‘ کے ساتھ کرنے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا ہے، یعنی جو مال شریعت کے مطابق ہاتھ آئے وہی تمھارے حق میں بہتر ہے، دوسرا کوئی نہیں، جیسا کہ شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا : ﴿ بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ﴾ [ ھود : ۸۶ ] ’’اللہ کا باقی بچا ہوا تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔‘‘ ’’جو اللہ کے پاس ہے‘‘ میں جنت بھی شامل ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ رہنے والی ہے اور دنیا فانی ہے۔