يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ
وہ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے بھی ہیں مگر پھر اس کا انکار کردیتے ہیں اور ان میں سے بیشتر [٨٥] ناشکرے ہیں
1۔ يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا: یعنی خوب جانتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات عنایت فرما رہی ہے، مگر جب عملاً شکر گزاری کا وقت آتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں۔ ’’ ثُمَّ ‘‘ یہاں تعجب کے لیے ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے پھر اللہ کی نعمتوں کا انکار کر دیتے ہیں، گویا دل میں نعمتوں کا اقرار اور اپنے عمل سے انکار کرتے ہیں، بلکہ پوچھنے پر اللہ کی نعمتوں کا اقرار زبان سے بھی کرتے ہیں، مثلاً تمھیں کس نے پیدا کیا؟ جواب دیں گے اللہ نے۔ (دیکھیے زخرف : ۸۷) اسی طرح سورۂ مومنون (۸۴ تا ۸۹) میں ان کے اعترافات ذکر فرمائے ہیں۔ مگر وہ ایمان لانے پر تیار نہ تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ صرف ’’لا الٰہ الااللہ‘‘ کہنے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ اپنی مرضی چھوڑ کر ہر کام میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننا پڑے گا اور اس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ ہمارے ہاں بس ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہنا جنت کے لیے کافی سمجھا گیا ہے، خواہ پوری زندگی اس کے خلاف ہو۔ وجہ اس کی محض طوطے کی طرح کہنا اور مفہوم سے مکمل لاتعلقی ہے۔ بعض اہل علم نے ’’ نِعْمَتَ اللّٰهِ ‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی لی ہے، یعنی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے بھی ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ 2۔ وَ اَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ:’’ اَكْثَرُهُمْ ‘‘ اس لیے فرمایا کہ ان کے اکثر جانتے ہوئے کافر تھے۔ کچھ جہل کی وجہ سے بھی انکار کرتے تھے، کچھ دل میں ایمان کا ارادہ بھی رکھتے تھے، کچھ چھوٹے بچے تھے، جو فطرتاً مسلمان تھے مگر کفار کی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کا شمار دنیوی لحاظ سے کفار میں ہوتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے انصاف کا اور انتہائی احتیاط کا ایک نمونہ ہے کہ ان سب کو نعمت پہچان کر پھر کفر کرنے والے قرار نہیں دیا، بلکہ یہ حکم ان کے اکثر پر لگایا۔