وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ
اور ان سے لڑو، جہاں بھی ان سے مڈ بھیڑ ہوجائے اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے [٢٥٢] اور فتنہ [٢٥٣] قتل سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد الحرام کے قریب ان سے جنگ نہ کرو الا یہ کہ وہ یہاں لڑائی شروع کردیں اور اگر وہ اس جگہ تم سے لڑائی کریں تو پھر ان کو قتل کرو کہ [٢٥٤] ایسے کافروں کی یہی سزا ہے
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ فتح کیا اور ۹ہجری میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور انھیں سورۂ توبہ میں مذکور اعلان کرنے کا حکم دیا جس کے مطابق مشرکین کو چار ماہ تک مکہ میں اور سرزمین عرب میں چلنے پھرنے کی اجازت دی گئی، اس کے بعد مسلمان نہ ہونے کی صورت میں وہ جہاں ملیں انھیں قتل کرنے کا حکم دے کر جزیرۂ عرب سے نکال دیا گیا۔ دیکھیے سورۂ توبہ کی پہلی پانچ آیات۔ پھر یہود کو بھی پہلے مدینہ سے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وصیت کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سر زمین عرب سے نکال دیا گیا۔ یہ سب اسی ”وَ اَخْرِجُوْهُمْ“ کے حکم کی تعمیل تھی۔ 2۔الْفِتْنَةُ: اس کا اصل معنی آزمائش میں ڈالنا ہے، مفسرین سلف نے اس کا معنی شرک کیا ہے اور ﴿وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾ کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ بے شک مشرکین کو قتل کرنے کا حکم بڑی سخت بات ہے، مگر وہ جس طرح شرک پر اڑے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کر کے انھیں دوبارہ مشرک بنانے کے لیے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں ، ان کا یہ شرک کرنا اور مسلمانوں کو اس پر مجبور کرنا اس سے بھی سخت جرم ہے۔ لہٰذا اس جرم کی پاداش میں کسی اندیشے اور سوچ بچار کے بغیر انھیں بے دریغ قتل کرو، یہاں تک کہ اللہ کا دین اتنا غالب ہو جائے کہ کسی کو مسلمان ہونے والے شخص پر ظلم و ستم کرکے اسے دین سے برگشتہ کرنے کی جرأت باقی نہ رہے۔ دوسرا معنی امام طبری رحمہ اللہ نے یہ کیا ہے کہ کسی مومن کو اسلام قبول کرنے پر آزمائش میں ڈالنا، یہاں تک کہ وہ اسلام سے برگشتہ ہو کر دوبارہ مشرک بن جائے، اس مومن کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور نقصان دہ ہے کہ وہ اسلام پر قائم رہتا اور اسی پر قتل ہو جاتا (کیونکہ قتل تو ایک ہی دفعہ ہو جاتا ہے، جب کہ کفار کی طرف سے سزا اور عذاب کا سلسلہ جاری رہتا ہے)۔ ( طبری) مجاہد رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں کہ مومن کا بت پرستی کی طرف لوٹ جانا اس پر قتل ہونے سے بھی زیادہ سخت ہے۔اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ بے شک ان کفار کو قتل کرنا بڑی سخت بات ہے، مگر جو معاملہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے قتل ہو جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے، تو مسلمانوں کو قتل ہو جانے سے بھی بڑی تکلیف اور آزمائش میں مبتلا کرنے کے مقابلے میں مسلمانوں کا انھیں قتل کرنا کم سخت ہے۔ ﴿وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾ کے الفاظ میں دونوں معنی موجود ہیں اور یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے۔ 3۔ وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ: یعنی سرزمین مکہ حرم ہے، اس میں قتل و قتال منع ہے، مگر کفار اس میں لڑنے کی ابتدا کریں تو تمھارے لیے بھی لڑنا جائز ہے، پھر اگر وہ لڑائی کریں تو پھر تم صرف قتال (لڑائی) ہی نہیں بلکہ انھیں قتل کرو، ایسے کافروں کی یہی جزا ہے۔ ”الْكٰفِرِيْن“ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ’’ایسے کافروں ‘‘ کیا گیا ہے۔