وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑنے لگتا تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق باقی نہ رہ جاتی [٥٨] لیکن وہ ایک معین عرصہ تک ڈھیل دیئے جاتا ہے پھر جب وہ مدت آجاتی ہے تو (اللہ کا عذاب ان سے) گھڑی بھر کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا
1۔ وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ....: ’’ يُؤَاخِذُ ‘‘ یہاں ’’ يَأْخُذُ ‘‘ کے معنی میں ہے، باب مفاعلہ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس میں پوچھ گچھ کا مفہوم بھی واضح ہوتا ہے۔ ظلم سے مراد کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ رکھنا ہے، سب سے بڑا ظلم شرک ہے، پھر اللہ کی کسی حد سے تجاوز کرنا اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنا ظلم کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہی بات سورۂ فاطر کی آخری آیت میں بیان فرمائی ہے۔ 2۔ ’’ النَّاسَ ‘‘ سے مراد یا تو کافر و مشرک ہیں، یا سارے ہی انسان مراد ہیں، خواہ کتنے نیک ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اور اس کے احکام کی پوری ادائیگی کوئی بھی نہ کر سکا ہے نہ کر سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا اَمَرَهٗ ﴾ [ عبس : ۲۳] ’’ہرگز نہیں، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا۔‘‘ یہ اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں نیک و بد سب کو ایک وقت تک مہلت ملی ہوئی ہے۔ لیکن اگر کبھی دنیا میں اللہ کی گرفت آ جائے تو سب نیک و بد، حتیٰ کہ چرند پرند وغیرہ بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، سوائے اس کے جس پر اللہ رحم کرے، پھر قیامت کے دن ہر ایک سے اس کے اپنے ایمان اور نیت و عمل کے مطابق معاملہ ہو گا۔ اس مفہوم کی حدیث کے لیے دیکھیے صحیح بخاری کی ’’ كِتَابُ الْبُيُوْعِ، بَابُ مَا ذُكِرَ فِي الْأَسْوَاقِ (۲۱۱۸) ‘‘ میں اس لشکر کا ذکر جو کعبہ پر حملہ کے لیے آئے گا۔