فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ
آخر سورج نکلنے کے وقت انھیں زبردست دھماکے نے آلیا
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ:’’اَشْرَقَتِ الشَّمْسُ‘‘ ’’سورج طلوع ہوا‘‘۔ اس سے پہلے آیت (۶۶) میں ’’مُصْبِحِيْنَ ‘‘ کا لفظ ہے ،یعنی صبح کے وقت۔ سورۂ قمر (۳۸) میں ’’ بُكْرَةً ‘‘ کا لفظ ہے، جس کا معنی دن کا پہلا حصہ ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ صبح کے وقت عذاب شروع ہوا اور سورج چڑھنے تک جاری رہا۔ ایک تطبیق یہ ہو سکتی ہے کہ صبح نمودار ہونے سے لے کر سورج چڑھنے کے کچھ بعد تک سارے وقت کو عرف میں صبح کہہ لیتے ہیں اور ایک تطبیق یہ بھی ہے کہ’’ أَشْرَقَ يُشْرِقُ‘‘ مطلقاً تاریکی میں روشنی ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے، جو ظاہر ہے کہ صبح کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے اور سورج نکلنے کے ساتھ مکمل ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا ﴾ [ الزمر : ۶۹ ] ’’ اور زمین اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن ہو جائے گی۔‘‘ میں نے ترجمہ میں یہی معنی اختیار کیا ہے، تاکہ ’’ مُصْبِحِيْنَ ‘‘ کے ساتھ مطابقت رہے۔