كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔[٢٢٦] (ایسی وصیت کرنا) پرہیزگاروں کے ذمہ حق ہے
1۔ ’’لکھ دیا گیا ہے ‘‘ یعنی فرض کر دیا گیا ہے۔ (راغب) ’’کسی کو موت آ پہنچے‘‘ یعنی اس کے اسباب و قرائن آ پہنچیں ، کیونکہ موت آنے کے بعد وصیت تو کیا، کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ 2۔چونکہ موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے، اس لیے اگر وصیت نہ کرنے کی صورت میں کسی کی حق تلفی کا خطرہ ہو، مثلاً کسی کا قرض ادا کرنا ہو تو وصیت میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’کسی مسلمان آدمی کا حق نہیں جس کے پاس کوئی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنا ہو کہ وہ دو راتیں اس کے بغیر گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔‘‘ [ بخاری، الوصایا، باب الوصایا : ۲۷۳۸، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما] ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان سننے کے بعد ایک رات بھی نہ گزری تھی کہ میں نے اپنی وصیت لکھ کر اپنے پاس رکھ لی۔ [ مسلم، الوصیۃ، باب وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ :4؍1627] 3۔ اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود وصیت کرتے ہوئے ان کا حصہ مقرر فرما دیا ہے، فرمایا : ﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ....وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ﴾ [ النساء : ۱۱ تا ۱۴] اب اللہ تعالیٰ کی وصیت کے بعد کسی اور کی وصیت کی کیا گنجائش ہے اور عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطٰی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ فَلاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ)) ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، چنانچہ وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔‘‘ [ نسائی، الوصایا، باب إبطال الوصیۃ للوارث : ۳۶۷۱۔ ترمذی : ۲۱۲۱۔ ابن ماجہ : ۲۷۱۳۔ وقال الترمذی حسن صحیح] 4۔ جب وارثوں کے حق میں وصیت جائز ہی نہیں تو اس آیت میں والدین اور اقربین یعنی قریبی رشتہ داروں کے حق میں وصیت کس طرح فرض کی گئی؟ اس سوال کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے کہ یہ آیت : ﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ﴾ [ النساء : ۱۱] کے ساتھ منسوخ ہے، چنانچہ اب والدین اور اقربین کے حق میں وصیت فرض تو دور، جائز بھی نہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے شک والدین اور اقربین کے حصے کی خود اللہ تعالیٰ نے وصیت فرما دی ہے، لہٰذا ان کے حق میں وصیت نہیں ہے، مگر کچھ والدین اور قریبی رشتہ دار ایسے بھی ہیں جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمایا، ان کے بارے میں وصیت کرنا فرض کر دیا تاکہ وہ محروم نہ رہ جائیں ، مثلاً وہ والدین جو کافر ہیں یا غلام ہیں ، وہ مسلمان کے وارث نہیں ہو سکتے، ان کے حق میں وصیت فرض ہے۔ یا کسی شخص کے دادا، دادی یا نانا، نانی کا اگر کوئی پرسان حال نہیں تو والدین ہونے کے ناتے ان کے حق میں بھی وصیت لازم ہے، جب کہ قریبی والد کی موجودگی میں وہ وارث نہیں ہیں ۔ اسی طرح کسی شخص کے بیٹوں کی موجودگی میں پوتے پوتیاں وارث نہیں ہو سکتے (اگرچہ پاکستان کے قانون میں اللہ کے حکم سے بغاوت کرتے ہوئے انھیں وارث بنایا گیا ہے)، ایسے پوتوں کے حق میں وصیت فرض ہے، تاکہ وہ یتیمی کے داغ کے ساتھ ساتھ دادے کے ورثے سے بھی بالکل محروم نہ رہ جائیں ۔ 5۔ کل مال میں سے ایک تہائی سے زیادہ وصیت جائز نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ تہائی مال وصیت کی اجازت دی اور اسے بھی بہت قرار دیا۔ [ بخاری، الفرائض، باب میراث البنات : ۶۷۳۳]