لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ
اس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لئے ایک تقسیم [٢٤] شدہ حصہ ہوگا
1۔ لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ: یہ سات دروازے مختلف قسم کے گناہ گاروں کے لیے ہوں گے، جو جہنمیوں کو جہنم کے مختلف درجوں کی طرف پہنچائیں گے۔ قرآن مجید میں جہنم کے درجوں کو ’’درکات‘‘ کہا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ [ النساء : ۱۴۵ ] ’’بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔‘‘ ابوطالب کے متعلق صحیح حدیث میں آیا ہے کہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچ رہی ہو گی۔ سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے : (( إِنَّ مِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ النَّارُ إِلٰی كَعْبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ إِلٰی حُجْزَتِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ إِلٰی عُنُقِهِ )) [مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب جہنم أعاذنا اللہ منھا : ۲۸۴۵ ]’’ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں آگ ٹخنوں تک پکڑے گی اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں ان کی کمر تک پکڑے گی اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جنھیں ان کی گردن تک پکڑے گی۔‘‘ 2۔ لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ : تقسیم کیے ہوئے حصے سے مراد بدکاروں کے سات حصوں میں تقسیم شدہ مجرموں کا ایک حصہ ہے، یعنی جس طرح ایک خاص عمل والے لوگ جنت میں ایک خاص دروازے سے داخل ہوں گے، اسی طرح برے عمل والے لوگ بھی اپنے اعمال کے مطابق جہنم کے مختلف دروازوں سے داخل ہوں گے، جیسے اوپر ذکر ہوا : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ [ النساء : ۱۴۵ ] ’’بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔‘‘ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’شاید بہشت کا ایک دروازہ زیادہ اس لیے ہے کہ بعض موحدین صرف اللہ کے فضل سے جنت میں جائیں گے، بغیر عمل کے۔‘‘ (موضح)