سورة الحجر - آیت 20

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اسی زمین میں ہم نے تمہارے لئے بھی سامان معیشت بنا دیا اور ان کے لئے بھی جن [١١] کے رازق تم نہیں ہو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ....: ’’ مَعَايِشَ ‘‘ ’’مَعِيْشَةٌ‘‘ کی جمع ہے، ’’عَاشَ يَعِيْشُ عَيْشًا وَ مَعَاشًا وَمَعِيْشَةً‘‘ کا معنی زندہ رہنا ہے، جیسے ’’مَاتَ يَمُوْتُ مَوْتًا‘‘ کا معنی مرنا ہے۔ پھر یہ لفظ زندگی کی ضرورتوں کے لیے استعمال ہونے لگا، یعنی تمھاری زندگی گزارنے کے لیے کھانے پینے، رہنے، علاج، راحت، سواری، الغرض ہر ضرورت کی چیز تمھارے لیے بھی پیدا کی اور ان کے لیے بھی جنھیں تم روزی دینے والے نہیں۔ اس سے دو قسم کی چیزیں مراد ہیں، ایک تو وہ جن کا تم سے تعلق ہی نہیں، سمندر کی گہرائیوں میں پہاڑوں کی بلندیوں میں، صحراؤں کی وسعتوں میں، زمین کی تہوں میں، آباد اور بے آباد زمین کی سطح پر اور فضاؤں میں بے شمار مخلوق ہے جنھیں تم ہرگز روزی دینے والے نہیں۔ ’’ لَسْتُمْ ‘‘ نفی کی تاکید ’’ بِرٰزِقِيْنَ ‘‘ کی باء کے ساتھ ہونے کی و جہ سے ترجمہ ’’ہر گز‘‘ کیا گیا ہے۔ دوسری وہ تمام چیزیں جو تمھاری خدمت کے لیے ہیں، مثلاً چوپائے، سواریاں، بیوی بچے اور نوکر چاکر وغیرہ، جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ ہم انھیں کھانے کو دے رہے ہیں، خوب سمجھ لو کہ تم ہر گز انھیں روزی نہیں دے رہے ،زمین میں ان کی معیشت بھی ہم ہی نے بنائی ہے اور ہم ہی انھیں رزق دے رہے ہیں، فرمایا : ﴿اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ ﴾ [ الذاریات : ۵۸ ] ’’بے شک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، قوت والا، نہایت مضبوط ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا ﴾ [ ہود : ۶ ] ’’اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے۔‘‘