سورة الحجر - آیت 16

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ ہم نے آسمان میں برج بنائے [٨] اور دیکھنے والوں کے لئے انھیں سجا دیا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَآءِ بُرُوْجًا: ’’ بُرُوْجًا ‘‘ ’’ بُرْجٌ ‘‘ کی جمع ہے، جو اصل میں بڑے بلند و بالا اور مزین قلعہ یا محل کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ ﴾ [ النساء : ۷۸ ] ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ اس کا اصل معنی نمایاں اور ظاہر ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے فرمایا: ﴿ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى ﴾ [ الأحزاب : ۳۳ ] ’’اور پہلی جاہلیت کے زینت لگا کر نمایاں ہونے کی طرح زینت لگا کر ظاہر نہ ہو۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ بروج کی پہلی آیت۔ پچھلی آیاتِ رسالت کے بعد اب توحید کا بیان شروع ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل کے لیے پہلے عالم بالا کا ذکر فرمایا ہے، پھر زمین کا، پھر ان کے درمیان کی چیزوں کا اور اس کے بعد آدم و ابلیس کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ فرمایا ہم نے آسمان میں عظیم الشان اور نمایاں برج بنائے ہیں، یعنی ستاروں کے نمایاں جھرمٹ، سورج اور چاند کی منازل جس سے رات کو ٹھنڈک والی روشنی اور دن کو تیز روشنی اور حرارت کے حصول کے علاوہ وقت، دنوں، مہینوں اور سالوں کا تعین ہوتا ہے۔ انسانوں، حیوانوں اور پودوں کی نشوونما، ان کی بقا اور بے انتہا ضرورتوں کا بندوبست ہوتا ہے، سمندر کا مدوجزر اور بے شمار فوائد جو تمھارے وہم و گمان میں بھی نہیں، انھی سے حاصل ہوتے ہیں۔ان سب کو بنانے والا، چلانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے؟ کسی کا دعویٰ ہے تو اسے سامنے لاؤ۔ بعض اہلِ علم نے ’’ بُرُوْجًا ‘‘ ان مقامات کو بھی بتایا ہے جہاں آسمان کے محافظ فرشتے رہتے ہیں۔ وَ زَيَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِيْنَ: اللہ تعالیٰ کی قدرت و توحید کے دلائل میں سے ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے آسمان کو چاند، ستاروں اور سورج سے مزین کر دیا ہے۔ رات کو ستاروں اور چاند کے ساتھ آسمان کی زینت کا نظارہ صحیح طرح وہاں ہوتا ہے جہاں مصنوعی روشنیاں نہ ہوں۔ یہ صرف ایک آسمان ہی پر موقوف نہیں، اس لامحدود قدرت والے نے جو چیز بھی پیدا کی خوب صورت پیدا کی اور اس میں زینت کا خاص اہتمام فرمایا، چھوٹے سے چھوٹے کیڑے سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق سب کچھ ہی کمال خوبصورت بنایا، فرمایا : ﴿ الَّذِيْ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ﴾ [ السجدۃ : ۷ ] ’’جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی۔‘‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاف ستھرا اور بن سنور کر رہنے کو پسند کرتے تھے، فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ )) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ۹۱ ] ’’بے شک اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ وہ سادھوؤں، جوگیوں یا راہبوں اور بے وقوف صوفیوں کی طرح گندے اور بدزیب ہو کر رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ دس چیزیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کا حصہ قرار دیا، مثلاً کلی، مسواک ،زیر ناف کی صفائی وغیرہ، یہ اسی نظافت اور جمال کو کامل رکھتی ہیں۔