سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ
ان کے لبادے تارکول کے ہوں [٥٠] گے اور آگ ان کے چہروں کو ڈھانک رہی ہوگی
سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ: ’’سَرَابِيْلُ‘‘ ’’سِرْبَالٌ‘‘ کی جمع ہے، بمعنی قمیص۔ ’’قَطِرَانٍ ‘‘ کا معنی قاموس اور لسان العرب میں ہے ابہل، صنوبر (چلغوزہ) اور اس قسم کے درختوں مثلاً چیڑ یا دیار وغیرہ سے نکلنے والی گوند، یعنی رال یا گندہ بیروزا جو تیزی سے جلتا ہے اور سخت بدبو دار ہوتا ہے، خارش زدہ اونٹوں کو ملا جاتا ہے۔ تمام مترجمین کی طرح میں نے بھی پہلے اس کا ترجمہ گندھک کیا تھا، مگر تفسیر کے وقت مختلف لغات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ’’قَطِرَانٍ ‘‘ رال (بیروزا) ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس کا ترجمہ تارکول کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس کا مادہ ’’قَطْرٌ‘‘ ٹپکنے کا مفہوم رکھتا ہے، اس لیے اس میں وہ تمام مائع چیزیں مراد ہو سکتی ہیں جو اشتعال پذیر یعنی شعلہ پکڑنے والی ہیں۔ (واللہ اعلم) ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلنَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ، وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ )) [ مسلم، الجنائز، باب التشدید في النیاحۃ : ۹۳۴ ] ’’نوحہ یعنی ماتم و بین کرنے والی عورت اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ اس پر ’’قَطِرَانٌ‘‘ کی قمیص اور خارش کا کرتہ ہو گا۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی قراء ت ہے ’’مِنْ قَطِرٍ آنٍ ‘‘ یعنی ان کی قمیصیں کھولتے ہوئے تانبے سے ہوں گی، مگر پہلی قراء ت ’’ قَطِرَانٍ ‘‘ متواتر اور راجح ہے۔ چہروں کو آگ سے ڈھانپنے کا خصوصاً ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ جسم کا سب سے باعزت حصہ ہے، اس کا حال یہ ہو گا تو دوسرے حصوں کا کیا حال ہوگا۔ یہ معاملہ کفار کے ساتھ ہو گا، کیونکہ مومنوں کے سجدے کے آثار (نشانات) کو جلانا اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث، جس میں قیامت کے کچھ احوال بیان ہوئے ہیں، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( حَتّٰی إِذَا فَرَغَ اللّٰهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَ أَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ لاَ يُشْرِكُ بِاللّٰهِ شَيْئًا، مِمَّنْ أَرَادَ اللّٰهُ أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إلَّا اللّٰهُ، فَيَعْرِفُوْنَهُمْ فِي النَّارِ بِأَثَرِ السُّجُوْدِ، تَأْكُلُ النَّارُ ابْنَ آدَمَ إِلاَّ أَثَرَ السُّجُوْدِ، حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَی النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُوْدِ )) [ بخاری، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿وجوہ یومئذ ناضرۃ....﴾ : ۷۴۳۷ ] ’’جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہوں گے اور اہل نار میں سے اپنی رحمت کے ساتھ جسے نکالنا چاہیں گے تو فرشتوں کو حکم دیں گے کہ وہ ان لوگوں کو آگ سے نکال لائیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا، ان لوگوں میں سے جن پر اللہ رحم کرنا چاہتا ہو گا، جو ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘کی شہادت دیتے ہوں گے تو وہ انھیں آگ میں سجدے کے نشان کے ساتھ پہچانیں گے۔ آگ ابن آدم کو کھا جائے گی مگر سجدے کے نشان کو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ سجدے کے نشان کو کھائے۔‘‘ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والے وہ ہوں گے جو شرک سے پاک ہوں گے اور جن کے جسم پر سجدے کے نشان ہوں گے۔ بے نماز اس نشان سے محروم ہوتے ہیں، انھیں اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔