سورة البقرة - آیت 173

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس نے تو صرف تم پر مردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ہر وہ چیز بھی جو غیر اللہ کے نام [٢١٥] سے مشہور کردی جائے۔ پھر جو شخص ایسی چیز کھانے پر مجبور ہوجائے درآنحالیکہ وہ نہ تو قانون شکنی کرنے والا ہو اور نہ ضرورت [٢١٦] سے زیادہ کھانے والا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ یقیناً بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم والاہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ”اِنَّمَا“ کا لفظ حصر کے لیے آتا ہے، اس لیے آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ چار چیزیں حرام کی ہیں ، ان کے سوا کچھ حرام نہیں اور دوسری آیت میں اس سے بھی صریح الفاظ میں یہ بات ذکر ہوئی ہے، فرمایا : ﴿قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ﴾ [ الأنعام : ۱۴۵] ’’کہہ دے میں اس وحی میں جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بے شک وہ گندگی ہے، یا نافرمانی (کا باعث) ہو، جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو۔‘‘ یعنی آپ اعلان کر دیں کہ میری وحی میں ان چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہیں ، مگر اس پر اشکال یہ ہے کہ دوسری آیات و احادیث سے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی حرمت ثابت ہے، مثلاً خمر یعنی ہر نشہ آور چیز اور درندے وغیرہ، تو یہاں صرف انھی چیزوں کو کیسے حرام کہا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تمام حلال و حرام کا ذکر نہیں ، بلکہ ان مخصوص جانوروں کی بات ہو رہی ہے جنہیں مشرکین مکہ نے حرام کر رکھا تھا، جب کہ آیت میں مذکور چاروں حرام چیزوں سے وہ اجتناب نہیں برتتے تھے، اس لیے ان کے اس فعل کے بالمقابل انھیں بتایا گیا کہ اللہ کے نزدیک فلاں فلاں چیزیں حرام ہیں جن سے تم اجتناب نہیں کرتے اور جو اللہ کے نزدیک حلال ہیں ان سے تم پرہیز کرتے ہو، گویا یہاں صرف ان مشرکین کی نسبت سے اور ان کے بالمقابل بات کی گئی ہے۔ اسے عربی میں حصر اضافی کہتے ہیں ۔ یہ حصر مطلق یعنی عام قاعدہ نہیں ۔ 2۔حرام و حلال سے متعلق قرآن و حدیث میں ان چار چیزوں کے علاوہ جو بنیادی احکام بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں : (1) سمندر کا ہر جانور خواہ زندہ پکڑا جائے یا مردہ، نام اس کا کچھ بھی ہو، حلال ہے۔ دیکھیے حاشیہ سورۂ مائدہ (۹۶) مراد اس سے پانی میں رہنے والے وہ جانور ہیں جو پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، خواہ سمندر میں ہوں یا دوسری جگہ پانی میں ، یعنی دریا وغیرہ میں ۔ (2) خشکی کے جانوروں میں سے ہر کچلی والا درندہ اور پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ حرام ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : (( اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَ عَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرٍ)) [مسلم، الصید والذبائح، باب تحریم أکل کل ذی .... : ۱۹۳۴] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر کچلی والے جانور اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں ( کے گوشت) کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ حدیث میں جن جانوروں کو نام لے کر حرام کہا گیا ہے، مثلاً گھریلو گدھا یا وہ جانور جنھیں جہاں ملیں مار دینے کا حکم ہے، یعنی سانپ، بچھو، چھپکلی، کوا، چیل وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں حرام کردہ چیزوں کے علاوہ باقی سب چیزیں حلال ہیں ۔3۔ آیت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۳) اور انعام (۱۴۵)۔