سورة ابراھیم - آیت 37

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے قابل احترام گھر کے پاس ایسے میدان میں لا بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔[٣٩] تاکہ وہ نماز قائم کریں۔[٤٠] پروردگار ! بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انھیں کھانے کو پھل مہیا فرما۔ توقع ہے کہ یہ شکرگزار رہیں گے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

رَبَّنَا اِنِّيْ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ : ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے۔ ’’کچھ اولاد‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تو اس وقت اسحاق علیہ السلام پیدا ہو چکے تھے۔ انھیں اور ان کی والدہ سارہ علیھا السلام کو ابراہیم علیہ السلام نے دوسری جگہ (شام میں) ٹھہرایا ہوا تھا۔ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ: وادی نیچی جگہ کو کہا جاتا ہے، جہاں کبھی پانی بہتا ہو، خصوصاً پہاڑوں کے درمیان گہری جگہ کو ’’وادی‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ ‘‘ مکہ اور اس کے گردو نواح بلکہ ارض عرب میں کھیتی باڑی نہیں تھی، کیونکہ بارش کے علاوہ وہاں پانی نہیں ملتا تھا اور زمین بھی پتھریلی یا ریتلی تھی، خصوصاً مکہ والی جگہ میں تو بالکل نہ پانی تھا نہ کھیتی باڑی۔ ان غیر آباد بیابان پہاڑوں کے درمیان اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجر علیھما السلام کو لا کر چھوڑ جانے کا، پھر ہاجر علیھا السلام کے صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے کا اور پانی تلاش کرنے اور زم زم کے پھوٹ نکلنے کا لمبا واقعہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مذکورہے۔ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ﴿یزفون ﴾ النسلان في المشي : ۳۳۶۴، ۳۳۶۵ ] ہزاروں سال بعد ابھی تک وہ ’’ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ ‘‘ ہی ہے، البتہ طائف میں کچھ کھیتی باڑی اور پھل وغیرہ ہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يَكْثُرَ الْمَالُ وَيَفِيْضَ، حَتّٰی يَخْرُجَ الرَّجُلُ بِزَكَاةِ مَالِهٖ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهَا مِنْهُ، وَحَتّٰی تَعُوْدَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوْجًا وَأَنْهَارًا )) ’’قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ مال بہت زیادہ نہ ہو جائے، حتیٰ کہ آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر نکلے گا، لیکن وہ کوئی ایسا شخص نہیں پائے گا جو اس سے اس کی زکوٰۃ لے لے اور جب تک ارض عرب دوبارہ مروج (سبزہ زار، کھلے کھیت) اور ندیوں نالوں کی صورت میں نہ بدل جائے۔‘‘ [مسلم، الزکاۃ، باب الترغیب في الصدقۃ قبل أن....:60؍157، قبل ح : ۱۰۱۳ ] لفظ ’’ تَعُوْدَ ‘‘ (دوبارہ نہ بدل جائے) سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بھی کبھی یہ پہاڑ کشمیر کے پہاڑوں کی طرح سرسبز اور ندیوں نہروں والے تھے، قیامت کے قریب پھر اسی طرح ہو جائیں گے۔ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ: اس سے بعض مفسرین نے اخذ کیا ہے کہ یہ دعا ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ تعمیر کرنے کے بعد کی، ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر بیت اللہ تو ابراہیم علیہ السلام کے وہاں جانے سے بھی بہت پہلے تعمیر ہو چکا تھا، کیونکہ وہ زمین پر اللہ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے اور سب جانتے ہیں کہ زمین پر اللہ کی عبادت آدم علیہ السلام سے یا اس سے بھی پہلے سے شروع ہے، اس کے بانی ٔ اول آدم علیہ السلام ہیں یا اس سے بھی پہلے کی کوئی مخلوق، مثلاً فرشتے یا جن وغیرہ۔ ہاں ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں سیلابوں کی وجہ سے یہ ایک ٹیلے کی شکل میں بدل چکا تھا، وہ جگہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بتائی اور انھی پہلی بنیادوں پر دوبارہ کعبہ تعمیر ہوا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۲۸) اور سورۂ حج (۲۶) ’’ الْمُحَرَّمِ ‘‘ اس لیے کہ کئی کام جو دوسری جگہ حلال ہیں مثلاً شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ، وہ یہاں حرام ہیں اور اس گھر کی عزت نہ کرنے والے کا یہاں طاقت کے ذریعے سے قبضہ حرام ہے، ممکن نہیں۔ اس لیے اس گھر کا لقب ’’اَلْبَيْتُ الْعَتِيْقُ‘‘ بھی ہے، یعنی جو ہمیشہ سے آزاد رہا۔ عتیق کا ایک معنی قدیم بھی ہے۔ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ: معلوم ہوا کہ آدمی کو خود بھی اور اولاد کو بھی ایسی جگہ ٹھہرانا چاہیے جہاں اہل توحید کی مسجد پہلے سے موجود ہو، یا جب آدمی وہاں سکونت اختیار کرے تو سب سے پہلا کام اپنا مکان اور مسجد بیک وقت بنانے کا کرے، خواہ کچی اینٹوں کی چار دیواری ہی ہو، جیسا کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آتے ہی کیا تھا، تاکہ اقامت صلاۃ میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور وہ آبادیاں تو رہنے کے قابل ہی نہیں جو نہایت عالی شان ہونے کے باوجود اکیلے اللہ کی عبادت کے لیے بنائی ہوئی مسجدوں سے خالی ہیں، یا وہاں ایسی مسجدیں گھر سے اتنی دور ہیں کہ نماز کے لیے وقت پر پہنچنا مشکل ہے۔ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْ اِلَيْهِمْ : ’’ اَفْىِٕدَةً ‘‘ ’’فُؤَادٌ‘‘ کی جمع ہے، یعنی دل، یا ’’وَفُوْدٌ‘‘ کی یعنی آنے والے۔ (عینی) ’’ مِنَ النَّاسِ ‘‘ کچھ لوگوں کے دل۔ ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے۔ ’’ تَهْوِيْ ‘‘ ’’ هَوَي يَهْوِيْ ‘‘ (ض) سے گرنا اور ’’هَوِيَ يَهْوٰي ‘‘ (ع) سے چاہنا اور محبت کرنا مراد ہوتا ہے۔ کوئی چیز جب بلندی سے گرتی ہے تو نہایت تیزی سے گرتی ہے اور بے اختیار ہو کر گرتی ہے، یعنی کچھ لوگوں کے دل ایسے بنا دے کہ بے اختیار اس کی طرف دوڑتے چلے آئیں۔ تفاسیر میں بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اگر دعا میں ’’کچھ لوگوں‘‘ کی قید نہ لگاتے تو سب لوگوں کے دل، خواہ مسلم ہوتے یا یہود و نصاریٰ، اس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ اس دعا کی قبولیت کا نظارہ ہر مسلمان اپنے دل میں اس گھر کے شوق سے اور وہاں حج وغیرہ کے لیے بار بار جانے والوں کی کثرت سے کر سکتا ہے۔ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ : مکہ میں دنیا کے تمام خطوں سے ہر موسم کا تازہ پھل دیکھ کر اس دعا کی قبولیت آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ اس دعا کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۲۴ تا ۱۲۷)۔