سورة ابراھیم - آیت 31

قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

(اے نبی)! میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کیا کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : انسان سارے ہی اللہ کے بندے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کا ’’عِبَادِيْ‘‘ (میرے بندے) کہنا بہت بڑی عزت افزائی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۱ ] ’’پاک ہے وہ جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے کہہ دیں جن میں دو وصف ہیں، ایک تو یہ کہ وہ صرف میرے بندے ہیں، کسی غیر کے نہیں، جو اپنے نام عبداللہ، عبد الرحمٰن اور ان جیسے رکھتے ہیں، نہ کہ عبد الحسین، عبد النبی، پیراں دتہ، غوث بخش وغیرہ اور جو قولاً و عملاً صرف میری عبادت اور بندگی کرتے ہیں، نہ کہ کسی غیر کی اور دوسرا وصف یہ کہ وہ ایمان لے آئے ہیں۔ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ يُنْفِقُوْا.....: یہ دونوں فعل لام امر مقدر کی وجہ سے مجزوم ہیں۔ اقامت کا معنی ہے سیدھا کرنا، یعنی نماز کو درست کرکے پڑھیں، اس میں ہمیشگی، وقت پر ادا کرنا، تمام ارکان کو صحیح ادا کرنا اور خشوع کے ساتھ ادا کرنا سب کچھ آ جاتا ہے۔ نماز میں بندگی کی ہر قسم کا کچھ نہ کچھ حصہ آ جاتا ہے، قبلہ کی طرف رخ حج سے مناسبت رکھتا ہے، قیام، رکوع سجود اور دو زانو ہونا غلامی اور بندگی کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں، نماز کے دوران میں کھانے پینے وغیرہ سے اجتناب روزے سے مناسبت رکھتا ہے، کاروبار چھوڑ کر آنا اس شخص کے لیے ممکن ہی نہیں جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے پر تیار ہی نہیں اور کئی اور چیزیں ایسی ہیں جو صرف نماز ہی میں ہیں، کسی اور عبادت میں نہیں۔ قرآن مجید میں اکثر نماز اور زکوٰۃ یا خرچ کرنا اکٹھا آیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی ان دونوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ 3۔ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً : اس میں دو باتوں کی طرف توجہ لازم ہے۔ ایک تو لفظ ’’مِنْ‘‘ ہے کہ اللہ نے ہمیں جوکچھ دیا ہے جان، مال، اولاد، قوت، علم، عزت، غرض جو شمار ہی نہیں ہو سکتا، وہ سارے کا سارا ہم سے خرچ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، کیونکہ اسے ہماری کمزوری کا علم ہے جو اس نے سورۂ محمد کی آیت (۳۶، ۳۷) میں ذکر فرمائی ہے۔ دوسرا لفظ ’’رَزَقْنَا‘‘ ہے کہ تم نے جو کچھ خرچ کرنا ہے ہمارے دیے ہوئے میں سے کرنا ہے، اگر یہ سوچو گے تو دل میں بخل نہیں آئے گا اور اگر سب کچھ اپنا سمجھو گے تو مشکل ہی سے خرچ کر سکو گے۔ ’’سِرًّا ‘‘ یعنی پوشیدہ اس لیے کہ وہ ریا سے پاک ہے اور ’’ عَلَانِيَةً ‘‘ یعنی علانیہ اس لیے کہ دوسروں کو رغبت ہو، یا فرض زکوٰۃ ہو تو علانیہ دو، کیونکہ چھپا کر دینے سے زکوٰۃ نہ دینے کی تہمت کا خطرہ ہے۔ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَ لَا خِلٰلٌ : ’’ خِلٰلٌ ‘‘ یہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے، بمعنی دلی دوستی، مراد ہے قیامت کا دن کہ جس میں نیک اعمال خریدے جا سکیں گے نہ کسی کی دوستی اور محبت کام آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچا سکے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی نیک عمل بکتے نہیں اور کوئی دوستی سے رعایت نہیں کرتا۔‘‘ (موضح) اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : ﴿ اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ﴾ [ الزخرف : ۶۷ ] ’’سب خلیل (دلی دوست) اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔‘‘