مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ
جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی [٢١] سی ہے جسے آندھی کے دن تیز ہوا نے اڑا دیا ہو۔ یہ لوگ اپنے کئے کرائے میں سے کچھ بھی نہ پاسکیں گے۔ یہی پرلے درجہ کی گم گشتگی ہے
مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ.....: کفار دنیا میں جو بھی اچھے کام کرتے ہیں، مثلاً کمزوروں کی مدد اور صدقہ وغیرہ، وہ آخرت میں ان کے کسی کام نہیں آئیں گے، کیونکہ ان کا بدلا انھیں دنیا ہی میں دیا جا چکا ہو گا۔ (دیکھیے الاحقاف : ۲۰) ’’عَاصِفٍ‘‘ ’’ عَصَفَ يَعْصِفُ‘‘ سے ہے، بمعنی توڑنا۔ ’’كَعَصْفٍ مَّأْكُوْلٍ‘‘ کا معنی ہے ریزہ شدہ بھس، یعنی تیز و تند ہوا جو ہر چیز کو توڑتی جائے۔ اس آیت میں قیامت کے دن کفار کے اعمال کے بے کار ہونے کی مثال دی ہے کہ ایک تند و تیز ہوا والے دن میں کسی راکھ پر بہت سخت ہوا چلے تو اس ہوا میں راکھ کا ایک ذرہ بھی ہاتھ میں آنا مشکل ہے، اسی طرح کفار کے اعمال صالحہ اس دن بے کار ہوں گے، کیونکہ ان کا کوئی عمل اس دن کے لیے تھا ہی نہیں، نہ اس دن پر ان کا ایمان تھا۔ مزید دیکھیے سورۂ فرقان(۲۳)، کہف (۱۰۳ تا ۱۰۶) اور آل عمران (۱۱۷)۔