وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان ( کفار و مشرکین) سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔ اگر ان کے آباؤ اجداد ہی کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ وہ راہ ہدایت [٢١٢] پر ہوں ( تو کیا پھر بھی یہ لوگ انہی کی پیروی کریں گے؟)
مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے پاس اپنے شرکیہ افعال کے لیے نہ کوئی عقلی دلیل تھی اور نہ ہی اللہ کی طرف سے آنے والی کوئی نقلی دلیل، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ احقاف (۴) میں انھیں چیلنج فرمایا کہ اللہ کی کسی کتاب میں سے کوئی نقلی دلیل تمھارے پاس ہے تو پیش کرو۔ چنانچہ جب انھیں کہا جاتا کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے تو جواب میں ان کے پاس ایک ہی دلیل تھی کہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے، وہ ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر کسی کے آباء و اجداد کو کسی بات کی عقل نہ ہو، مثلاً انھوں نے خسارے کی تجارت کی ہو، یا غلط راستے پر چلتے رہے ہوں تو کیا تم اندھے بن کر انھی کے پیچھے چلتے رہو گے؟ نہیں ! بلکہ خود عقل سے کام لو اور سیدھے راستے پر چلو، جو صرف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ ان آیات میں روئے سخن اگرچہ مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی طرف ہے، لیکن اگر مسلمان بھی یہی روش اختیار کریں کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رسم و رواج پر عمل کرنے میں اپنے آباء و اجداد کی پیروی کریں ، یا اپنے امام، پیشوا یا عالم دین کے قول، رائے یا فتویٰ پر عمل پیرا ہوں جس کی دلیل قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو تو وہ بھی اس آیت میں بیان کردہ مذمت اور وعید کے زمرے میں آئیں گے اور اسی کا نام تقلید ہے، کیونکہ علماء کے نزدیک تقلید کی تعریف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بجائے کسی غیر (امام، پیشوا یا عالم دین) کا قول دلیل کے بغیر لے لینا تقلید ہے۔ ایسی باتوں پر عمل کرنا حرام ہے، خواہ ایسا عمل مشرکین اور یہود و نصاریٰ کریں یا مسلمان، لیکن اگر کسی امام، پیشوا یا عالم کی رائے قرآن و حدیث کی نصوص کے خلاف نہ ہو تو ایسی رائے یا فتویٰ پر عمل کرنا تقلید کے زمرے میں نہیں آتا اور نہ ہی اسے نا جائز کہا جائے گا۔