وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ
اور ان کے بعد تمہیں اس ملک میں آباد کریں گے : یہ (انعام) اس شخص کے لئے ہے جو میرے سامنے (جوابدہی کے لئے) کھڑا ہونے سے اور میری وعید سے ڈرتا ہو
وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ.....: یعنی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے انھیں حوصلہ دیا کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کریں گے اور اس سرزمین پر تمھیں آباد کریں گے۔ انبیاء کے پیروکاروں کا آخر کار کفار کے علاقوں پر قابض ہونا بھی درحقیقت انبیاء ہی کا غلبہ ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ایک مدت بعد شام اور مصر وغیرہ پر قابض ہوئے، فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ ﴾ [الشعراء : ۵۹ ] ’’ایسے ہی ہوا اور ہم نے ان کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا۔‘‘ اور مسلمان اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں جزیرۂ عرب پر قابض ہو گئے تھے، جیسا کہ یہود کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِيَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ وَ اَرْضًا لَّمْ تَطَـُٔوْهَا وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا﴾ [ الأحزاب : ۲۷ ] ’’اور (اے مسلمانو!) تمھیں ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مالوں کا وارث بنا دیا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے قدم نہیں رکھا تھا اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ مگر زمین کے مشارق و مغارب کی فتوحات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوئیں اور یہ بھی درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی فتوحات تھیں، کیونکہ ان کے دین اور ان کے پیروکاروں کی فتوحات تھیں۔ ’’وَعِيْدِ ‘‘ اصل میں ’’وَعِيْدِيْ‘‘ تھا، ’’میری وعید‘‘ آیات کے آخری حصوں کی موافقت کے لیے یاء حذف کرکے کسرہ باقی رکھا گیا۔