قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
رسولوں نے انھیں کہا: ’’کیا اس اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ معاف کر دے اور ایک معین عرصہ [١٤] تک تمہیں مہلت بھی دیتا ہے‘‘ وہ کہنے لگے : ’’تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، تم چاہتے یہ ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے۔ ہمارے [١٥] پاس کوئی واضح معجزہ تو لاؤ‘‘
1۔ قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ ....: رسولوں نے یہاں کوئی منطقی و فلسفی بحث نہیں چھیڑی، بلکہ ان کی فطرت کو جھنجوڑا کہ ہر شخص سمجھتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز حتیٰ کہ سوئی یا کوئی کھلونا بھی بنانے والے کے بغیر نہیں بنتا۔ رازی نے اس کی ایک مثال دی کہ دو بچوں میں سے ایک بچہ دوسرے کو پیچھے سے سر پر ایک چپت لگا کر چھپ جائے تو وہ کبھی یہ نہیں مانے گا کہ یہ چپت خود بخود لگ گئی ہے، بلکہ اسے یقین ہو گا کہ یہ کسی نے ماری ہے۔ تو کسی بھی کام کے خودبخود ہو جانے کو تو ایک بچے کی فطرت بھی تسلیم نہیں کرتی، تو عاقل و بالغ ہو کر تمھیں اس اللہ کے متعلق شک ہے جس نے اتنے عظیم آسمان و زمین بنائے، جن کے مقابلے میں تمھارا بنانا کچھ بھی مشکل نہیں کہ وہ اللہ ہے بھی یا نہیں؟ اور ایک ہے یا کئی ہیں؟ ’’شَكٌّ ‘‘ کی تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی کیا اللہ کے بارے میں کوئی بھی شک ہے؟ یہ استفہام انکاری ہے، یعنی اس کے متعلق کسی قسم کے شک کی تو گنجائش ہی نہیں۔ 2۔ مِنْ ذُنُوْبِكُمْ:’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی تاکہ تمھارے بعض یا کچھ گناہ بخش دے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام لانے سے پہلے کے گناہ اسلام لانے سے معاف ہو جائیں گے، آئندہ کے گناہ تمھارے عمل اور توبہ کے مطابق دیکھے جائیں گے۔ کفار کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہر جگہ ’’ مِنْ ‘‘ (بعض) کے ساتھ آیا ہے، جیسا کہ یہاں اور سورۂ نوح اور احقاف میں ہے، البتہ اہل ایمان کی مغفرت کا ذکر ’’مِنْ‘‘ کے بغیر ہے، جیسا کہ سورۂ صف میں جہاد کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ﴾ [الصف : ۱۲ ] ’’وہ تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ 3۔ وَ يُؤَخِّرَكُمْ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى : یعنی دنیا میں موت کے وقت تک تمھیں عذاب سے محفوظ رکھے۔ (قرطبی) 4۔ قَالُوْا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا : یعنی تم ظاہری شکل و صورت میں، کھانے پینے میں اور دوسری انسانی ضروریات کے اعتبار سے ہمارے جیسے بشر ہو، ہم اپنے آپ پر تمھاری برتری کیسے تسلیم کر لیں۔ مقصد تمھارا ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے معبودوں کی عبادت سے روکنا ہے۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ یہی کفار جو دین اور آخرت کے معاملے میں اپنے آباء کی تقلید کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید سے انکار پر اصرار کر رہے ہیں، اتنا سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ دنیا کے کاموں میں بھی وہ آباء کی تقلید کرتے تو دنیا کے ہر دور میں انھوں نے جو ترقی کی، حتیٰ کہ اب ایٹم بم تک پہنچ گئے، یہ ترقی کبھی نہ ہو سکتی، مگر ان کی ڈھٹائی دیکھو کہ انبیاء کے واضح معجزات دیکھ کر اور ’’ اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ جیسی لاجواب دلیلیں سن کر بھی، جنھوں نے انھیں اندر سے ہلا دیا اور وہ اپنے بے چین رکھنے والے شک کا خود اقرار کر رہے ہیں، تقلید پر اڑے ہوئے ہیں اور مزید واضح دلیل کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر دنیوی معاملات میں وہ آباء کی تقلید پر اکتفا کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔