أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
کیا تمہیں ان لوگوں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں جیسے نوح، عاد اور ثمود کی قومیں، اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کے حالات جنہیں صرف [١١] اللہ ہی جانتا ہے۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ [١٢] میں دے دیئے اور کہنے لگے : ’’جو پیغام تم لائے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو اس سے ہم ایسے شک میں پڑگئے ہیں جو ہمیں بے چین [١٣] کر رہا ہے‘‘
1۔ لَا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ : یعنی اللہ تعالیٰ ہی ان کی تعداد اور تمام حالات سے واقف ہے اور ان کے نسب کو بھی صحیح طور پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 2۔ فَرَدُّوْا اَيْدِيَهُمْ فِيْ اَفْوَاهِهِمْ : یعنی غصے کے مارے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے، جیسا کہ دوسری آیت میں منافقین کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ﴾ [ آل عمران : ۱۱۹ ] ’’اور (یہ منافقین) جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصے سے انگلیوں کی پوریں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔‘‘ یا ہنسی اور تعجب کے مارے منہ پر ہاتھ رکھ لیے، یا ہاتھ منہ کی طرف لے جا کر اشارہ کیا کہ بس چپ رہو۔ پہلے معنی کو اکثر مفسرین نے ترجیح دی ہے، ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے منہ پر رکھ دیے کہ وہ خاموش رہیں۔ 3۔ وَ قَالُوْا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَا اُرْسِلْتُمْ بِهٖ ....: ’’بِمَا اُرْسِلْتُمْ بِهٖ ‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی نشانیاں دیکھ کر وہ یہ ضرور جان چکے تھے کہ ان رسولوں کو یہ معجزے دے کر بھیجا گیا ہے، یہ رسول خود یہ معجزے نہیں لے آئے۔ اس لیے اگرچہ انھوں نے توحید کی دعوت ماننے سے انکار کر دیا، مگر اپنے کفر پر بھی ان کا یقین متزلزل ہو گیا اور انھوں نے کہا کہ ہم تمھاری دعوت کے بارے میں ایک بے چین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں۔