وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ
اور جن روابط کو اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے۔ انھیں ملاتے ہیں، اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور بری طرح [٢٩] حساب لئے جانے سے خوف کھاتے ہیں
1۔ وَ الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖ اَنْ يُّوْصَلَ : یعنی صلہ رحمی کرتے ہیں، رشتوں کو نزدیک کے ہوں یا دور کے، ان کے مراتب کے مطابق ملاتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزو جل، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، عام مسلمانوں، ہمسایوں، رشتہ داروں، دوستوں، یتیموں، بیواؤں، الغرض ہر ایک کا حق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں۔ 2۔ وَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ.....: اس کے عائد کردہ فرائض کو بجا لاتے اور اس کے منع کردہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ راغب نے کہا : ’’خشیت ایسا خوف ہے جس کے ساتھ تعظیم ملی ہوئی ہو، اکثر اس کا باعث علم ہوتا ہے۔‘‘ جیسے فرمایا : ﴿ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ﴾ [فاطر : ۲۸ ] ’’اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔‘‘ خوف سے مراد کوئی بھی ڈر ہے، بعض نے کہا، دونوں (خشیت اور خوف) ہم معنی ہیں، فرق اغلبی ہے، کلی نہیں۔ (آلوسی) 3۔ وَ يَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ : لہٰذا وہ اس وقت سے پہلے ہی اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔ ’’ سُوْٓءَ الْحِسَابِ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ رعد کی آیت (۱۸) کی تفسیر۔